منگل، 4 ستمبر، 2012

بطل جلیل۔۔۔سعید بن جبیرؒ

0 تبصرے
آپ جلیل القدرتابعی ابوعبداللہ سعید بن جبیر ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا، آپ کا شمار کبار تابعین میں ہوتا ہے، بلکہ حسن بصریؒ  اورسعید بن مسیب سمیت آپ کو  بھی سید التابعین کہا گیا۔
علم:
حضرت سعید بن جبیر ؒ نے حضرت ابوسعید خدری، حضرت عدی بن حاتم الطائی، حضرت ابوموسی اشعری، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے علم حاصل کیا، ان حضرات کےعلاوہ علم کے بحربیکراں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ طے کیے۔
تکمیل علم کے بعد کوفہ میں رہائش اختیار کی اور اہل کوفہ کے معلم اور امام بن گئے۔آپ نے کوفہ کے بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کو علم سکھایا،اسی طرح آپ متعدد قراءتوں میں مہارت بھی رکھتے تھے، آپ کبھی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے لہجے میں قرات کرتے تو کبھی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا لہجہ اختیار کرتے۔
آپ حبشی النسل ، قوی الجثہ، بھرا ہوا جسم، بیدار مغز، زندہ دل، زود فہم، زیرک حسن اخلاق کا پیکر،محرمات ومکروہات سے دامن کش، ابھرتا ہوا چاق وچوبند کریل  جوان تھے۔
عباد بن دینار نے ان سے ایک سوال کیا کہ خشیت کسے کہتے ہیں؟آپ نے جواب دیا: خشیت اسے کہتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے ایسا ڈرو کہ یہ ڈر تیرے اور گناہ کے درمیان حائل ہوجائے۔پھر انھوں نے سوال کیا ، اے ابو عبداللہ ذکر الہٰی کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی دراصل ذکر الہٰی ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی اطاعت بجالایا، گویا اس نے حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا، جس  نے اللہ تعالیٰ سے روگردانی کی، اور اس کی اطاعت نہ کی خواہ وہ ساری رات تسبیح اور تلاوت کرتا رہے ، اسے ذاکر نہیں کہا جاسکتا۔
آپ سے ھلال بن خباب نے لوگوں کے ہلاکت کی علامت پوچھی، آپ نے فرمایا: جب ان کے علماء ختم ہوجائیں۔ ایک شخص نے دریافت کیا: لوگوں میں سب سے بڑا عابد کون ہے؟ فرمایا:  وہ آدمی ہے جوگناہوں کا ارتکاب کرے ، پھر جب بھی اسے اپنے گناہ یاد آئیں اپنے عمل کو حقیر سمجھے۔
آپ رضی اللہ عنہ ہر برس عمرہ اور حج کرتے تھے، سال میں دو مرتبہ بیت اللہ کا سفر کرتے تھے، ایک مرتبہ ماہ رجب میں عمرہ کی نیت سے اور ایک مرتبہ ماہ ذی قعدہ میں حج کی نیت سے۔
سعید بن جبیر کے اقوال اور دعا:
آپ یہ دعا کرتے تھے:
"اللهم إني أسألك صدق التوكل عليك، وحسن الظن بك".
(اے اللہ میں تجھ سے تیری ذات پر سچا بھروسہ اور تیرے ساتھ حسن ظن کا سوال کرتا ہوں )
اپنے ایک شاگرد سے ایک مرتبہ کہا: یاد رکھو مومن کا ہر دن ایک فرصت ہے۔
جب سے حضرت سعید بن جبیر نے کوفہ میں رہائش اختیار کی تھی ، یہ شہر حجاج بن یوسف کے زیر تسلط آچکا تھا، حجاج ان  دنوں عراق، ایران اور سرزمین ماوراء النہر کا گورنر تھا، اور اس کا رعب ودبدبہ ،ظلم وستم، جبروقہر اور اقتدار واختیار نقطہ عروج پر تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب حجاج بن یوسف نے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن زبیرکو قتل کرکے بنوامیہ کے خلاف برپا ہونے والی تحریک کا خاتمہ کردیا تھا، پورے عراق کو بنوامیہ کے حکمراں کے تابع کردیا تھا، اور چاروں طرف بنوامیہ کے خلاف اٹھنے والی شورش کی آگ کو بجھادیا تھا، اس نے بندگان خدا کی گردنوں پر بے دریغ تلوار چلائی، ملک کے کونے کونے میں اپنے رعب ودبدبہ کی ایسی دھاک بٹھادی کہ لوگوں کے دل اس کی پکڑ دھکڑ سے لزرنے لگے۔
جب سعید بن جبیر کو حجاج بن یوسف کے دربار میں پیش کیا گیا، حجاج نے انہیں کینہ پرور نگاہوں سے دیکھا اور بڑے حقارت آمیز لہجے میں پوچھا تیرا نام کیا ہے؟
 آپ نے فرمایا: سعید بن جبیر
حجاج نے کہا: نہیں بلکہ تیرا نام شقی بن کسیر ہے۔
فرمایا: میری والدہ میرے نام کے متعلق تجھ سے بہتر جانتی ہے
حجاج نے کہا: توشقی اور تیری ماں بھی شقی ہیں۔
سعید نے کہا: غیب کا علم کسی اور کو ہے، (یعنی اللہ تعالیٰ) وہ ذات جانتی ہے کہ میں اور میری ماں جنتی ہیں یا دوزخی۔
اس کے بعد حجاج نے حضرت سعید بن جبیر سے متعدد سوالات کیے اور پھر پوچھا:
تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟
سعید نے کہا: تم اپنے آپ سے زیادہ واقف ہو۔
حجاج نے کہا: نہیں، بلکہ میں تمہاری رائے جاننا چاہتا ہوں۔
سعید نے کہا: میری بات تمہیں مغموم کردے گی نہ کہ خوش۔
حجاج نے کہا: ٹھیک ہے ہم تم سے سنیں گے۔
سعید کہنے لگے: مجھے معلوم ہے کہ تم اللہ کی کتاب کے مخالف ہو، تم رعب جمانے کے لیے ایسی چیز کرتے ہو جو تمہیں جہنم تک پہنچائے گی۔
حجاج نے کہا: اب تم اپنے لیے کس طرح کے قتل کا طریقہ چاہو گے؟
سعید نے کہا: اے حجاج! تو اپنے لیے جیسے قتل کا طریقہ چاہتا ہے وہی اختیار کر، اللہ کی قسم تو مجھے جس طرح قتل کرے گا آخرت میں اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح تیرا قتل فرمائیں گے۔
پھر حجاج نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں معاف کردوں۔
سعید نے کہا: اگر معافی ہوئی تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے،اور اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں۔
حجاج نے کہا: اسے لے جاؤ اور قتل کردو، (جب حضرت سعید اس کے پاس سے نکلے تو ہنس دیا)
حجاج کو اس بات کی خبر دی گئی تو انھیں دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا، اور کہا: کس چیز نے تمہیں ہنسایا؟
سعید نے کہا: تیری اللہ پر جراءت اور اللہ کی تجھ پر نرمی نے مجھے تعجب میں ڈالا۔
تو حجاج نے  کہا: اس کا سر قلم کردو اور ذبح کے لیے اسے لٹادے۔
سعید کی زبان سے جاری ہوا: 
إني وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ۔ [الأنعام: 79]
’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمان وزمین بنایا۔‘‘
حجاج نے کہا: اس کی پشت کو قبلے کی طرف کردو۔
سعید کہنے لگے:
فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ [البقرة: 115]
’’تو جدھر بھی تم رخ کرو، ادھر ہی اللہ کی ذات ہے‘‘
پھر حجاج نے حکم دیا : اسے منہ کے بل لٹادیا جائے۔
سعید کہنے لگے:
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى۔[طه: 55]
’’اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اسی میں لوٹائیں گے، اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے‘‘
حجاج کہنے لگا : بڑا تعجب ہے اس پر، اس موقع پر اسے یہ آیات کیسے یاد آرہی ہیں! اسے ذبح کردو!
سعید کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، حجاج یہ کلمات لو اور پھر قیامت کے دن اس کے ساتھ ملاقات ہوگی۔۔
اس کے بعد حضرت سعید نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ میرے بعد اسے کسی پر مسلط نہ فرمانا کہ وہ میرے بعد کسی کو قتل کرسکے۔
سعید بن جبیر کو ذبح کردیا گیا، اللہ تعالیٰ نے سعید کی دعا کو قبول فرمایا، پھر ان  کے بعد حجاج کسی کو قتل نہیں کرسکا۔۔
حضرت سعید کی شہادت کے بعد حجاج صرف چالیس دن ہی زندہ رہا، یہ بھی کہا جاتا ہے وہ پندرہ دن یا صرف تین دن زندہ رہا، سخت بخار میں مبتلا ہوا اور مر گیا، یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب حسن بصری کو حجاج کے ہاتھوں حضرت سعید کے قتل کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی:
"اللهم يا قاصم الجبابرة اقصم الحجاج". ’’اے سرکشوں کو ختم کرنے والے! حجاج کو ختم فرما‘‘۔
ان کی دعا کے تین دن بعد ہی حجاج کے پیٹ میں ایک کیڑہ پیدا ہوا اور وہ بری موت مرگیا۔
یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ حجاج کی موت سے چند دن پہلے اس کی زندگی خوابوں میں تبدیل ہوگئی تھی، اس کی نیند اڑ چکی تھی، جب بھی سونے کی کوشش کرتاخواب میں سعید بن جبیر اس کے پیروں کو کھینچتے ہوئے دکھائی دیتے، حجاج بھڑبھڑا کر چیختے ہوئےنیند سے بیدار ہوجاتا اور کہتا : ارے  یہ سعید بن جبیرابھی ابھی انھوں نے میرے پیروں کو پکڑا تھا، اور کبھی چیختے ہوئے بیدار ہوتا : ارے سعید بن جبیر میرا گلا گھونٹ رہا ہے اور کبھی نیند سے یہ کہتا ہوا بیدار ہوتا: سعید بن جبیر کہہ رہا ہے کس جرم میں تونے مجھے قتل کیا؟ پھر حجاج رونے لگ جاتا اور کہتا میرا اور سعید بن جبیر کا کیا معاملہ ہے۔
حجاج کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ اس کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ راستہ چلتے ہوئے بڑ بڑاتا تھا’’ سعید بن جبیر کو میرے پاس سے ہٹاؤ‘‘ یہ بھی منقول ہے کہ بعض لوگوں نے حجاج کو خواب میں دیکھا تو اس سے پوچھا: حجاج اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ حجاج نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے بدلے مجھے ایک ایک بار قتل کیا اور سعید بن جبیر کے بدلے ستر مرتبہ قتل کیا۔
اللہ تعالیٰ تابعی  جلیل حضرت سعید بن جبیر پر رحم فرمائے،جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: سعید بن جبیر شہید کردیئے گئے، لیکن روئے زمین کا ہر باشندہ ان کے علم کا محتاج ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت سعید بن جبیر پر اپنی رحمتوں کی برکھا برسائے، اور انھیں نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اپنے وسیع وعریض جنت میں داخل فرمائے۔۔
وصلى الله وسلم على محمد وعلى آله وصحبه ومن تبعهم أجمعين.
مجلة البشرى
 ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
موقع وذكر الإسلامي

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔