بدھ، 5 ستمبر، 2012

نبی رحمت ﷺ اور بچے

0 تبصرے


نبی کریم ﷺ تعلیمی نظریے کے اسلوب کے مطابق بچوں کے ساتھ کامیاب معاملات کی حقیقت سے بخوبی آشنا تھے،آپ کا اسلوب  تربیت علم، تجربہ،کشادہ دلی، صبر اور  برداشت پر مشتمل تھا، بچپن کے مرحلے کی اہمیت کے پیش نظر آپ ﷺ نے  بچوں کے ساتھ  ایسا تربیتی اور تعلیمی تعامل  کا اسلوب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کامیاب شخصیات، بے نظیر قائدین،  اورجینیس  اور نابغۂ روزگار افراد پیدا  ہوئے ۔ نبی کریم ﷺ کا بچوں کے ساتھ برتاؤ کیسا تھا؟ اس موضوع پر روشنی ڈال رہے ہیں:
بچوں سے لطف ومحبت:
بچے  ہر وقت اس شخص سے محبت کرتے ہیں ، جو ان کے ساتھ محبت و سادگی سے پیش آئے، اور ان کے ساتھ اس طرح رہے گویا کہ وہ خود بھی بچہ ہی ہے۔بچے ایسے شخص سے نفرت کرتےہیں جو غصہ والا،ترش رو اور بےصبرا ہو۔ نیزبچے محترم اورسنجیدہ انسان کو پسند کرتے ہیں،نبی کریم ﷺ بچپن کی عمر کی فطرت سے بخوبی واقف تھے،لہٰذا آپ ﷺ بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے تھے جیسی ان کی پسند ہوتی تھی، لیکن آپ ﷺ انکے ساتھ اپنی سادگی،ان سے مذاق دل لگی،اور ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اوران کی شخصیت سنوارنے اورانہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں:  «كنَّا نصلي مع رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- العشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره، وإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه أخذًا رفيقًا، فوضعهما وضعًا رفيقًا، فإذا عاد؛ عادا، فلما صلذَى وضعهما على فخذيه» ([1]).
 (ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے سجدہ فرمایا تو حسن اور حسین آپ کی پیٹ مبارک پر چڑ گئے، جب آپ نے اپنے سر کو اٹھایا توان دونوں کو آہستہ سے پیچھے سے پکڑا اور محبت سے اتار دیا، جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ان دونوں کو اپنے گود میں لے لیا )۔
بچہ، واجبات، حقوق، اصول ومبادی اور اخلاق ومعانی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ باتیں اسے اس کی زندگی کے کئی سالوں میں قدم قدم پر حاصل ہوتی ہے، وہ شخص غلطی پر ہے جو بچوں کے ساتھ بڑوں جیسا سلوک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بچہ اصول وضوابط کو جانے، لیکن بہت سے لوگوں کو بچوں کے ساتھ اسی طرح کا براسلوک کرتے ہوئے دیکھا گیا، ایسے لوگوں کا بچوں سے مطالبہ ہے کہ وہ پرسکون، وقار وچین کے ساتھ اور خاموش رہے، حالانکہ ان باتوں پر بچے عمل نہیں کرسکتے۔
اُم خالد جو خالد بن سعید کی بیٹی تھی وہ کہتی تھی میں رسول اللہﷺ کے پاس اپنے باپ کے ساتھ آئی میں ایک زرد قمیض پہنی تھی ، رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو دیکھ کر فر مایا واہ واہ کیا کہنا ''سنہ سنہ'' یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ام خالد کہتی ہے (میں کم سن بچی تو تھی ہی )میں جاکر رسول اللہ ﷺ کی پشت پر مہر نبوّت سے کھیلنے لگی میرے باپ نے مجھ کو جھڑکایا،  رسول اللہ ﷺ نے فر مایا اس کو کھیلنے دے پھر آپ ﷺ نے مجھ کو یوں دُعا دی یہ کپڑ ا پرا نا کر پھاڑ، پرانا کر پھاڑ تین بار یہی فر مایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں وہ کرتہ تبرک کے طور پررکھارہا یہاں تک کہ کالا پڑگیا ۔([2])
یہ ایک عبرت آموز واقعہ ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے، جسے یہ بھی پتا ہے کہ نبی کریم ﷺ بچوں سے بہت محبت فرماتے اور آپ بچوں  سےملنے میں اکتاتے نہیں ہے بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں، اور باپ کے سامنے بچی آپ ﷺ کے سامنے جرات کرتی ہیں اور آپ کے پشت مبارک سے لٹکتی اور کھیلتی ہیں اور آپ ہنستے ہیں اور اسے اپنے ساتھ کھیلنے کے لئے بلاتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوا کہ چھوٹے بچے کو آپ نے گود میں لیا، اور اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑوں پر چھڑک دیا، اور دھویا نہیں، آپ کی بچوں کے ساتھ کثرت محبت اور انہیں لینےکے سبب آپ ﷺ کے کپڑوں اور آپ کے حجروں میں چھوٹے بچوں کے پیشاب کرنے کے کثرت سے واقعات ہوئے ہیں، آپ ﷺ نے نہ صرف لڑکوں کو ہی اپنے گود میں نہیں اٹھایا بلکہ لڑکیوں کو بھی آپ پیار سے گودمیں لیتے تھے۔
حضرت ابوموسی اشعری ؓ فرماتے ہیں: «وُلد لي غلامٌ، فأتيت به النّبيّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فسمّاه إبراهيم، فحنكه بتمرةٍ، ودعا له بالبركة» ([3]).
(مجھے بیٹا ہوا، تو میں نے اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لایا، تو آپ نے اس کا نام ابراھیم رکھا، پھر کھجورچباکراسے چٹایا اور اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی)
آپ ﷺ بچوں کے ساتھ راستے میں بھی کھیلا کرتے تھے، یعلی بن مرہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھانے پر نکلا، تو حسین بن علی راستے میں کھیل رہے تھے، نبی ﷺ لوگوں کے درمیان سے جلدی آگے بڑھے، پھر اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، تاکہ حسین کو لیں، لیکن حسین ادھر ادھر بھاگنے لگے،آپ ﷺ ان کا پیچھا کرتے اور انہیں ہنساتے، آپ نے اسامہ بن زید اور حسن بن علی کو لیا اور اپنے گود میں دونوں کو بٹھایا، پھر ان کو گلے سے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا : «اللهمّ ارحمهما فإني أرحمهما» ([4]).
 (اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت کرتا ہوں)
اور ایک حدیث میں ہے: آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے کاندھوں پر امامہ بنت ابوالعاص تھیں، پھر آپ نے نماز پڑھی، جب رکوع کیا تو امامہ کو نیچے اتاردیا، پھر جب رکوع سے اٹھے تو امامہ کو اٹھالیا۔
محمود بن ربیع کہتے ہیں: مجھے ابھی تک نبی کریم ﷺ کی وہ کُلی یاد ہے جو آپ ﷺ نے ایک ڈول سے لے کر میرے منہ پر کی تھی اس وقت میں پانچ سال کا تھا۔
جب آپ ﷺ نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اپنی نماز کو ہلکی کردیتے تھے، تاکہ بچے کی ماں اپنی نماز ختم کرے اور بچے کو لے، یا اس کے رونے کو خاموش کرے اور بچے کی ضرورت کو پوری کرے، آپ ﷺ کا ارشادہے: «إني لأقوم إلى الصّلاة، وأنا أريد أن أطول فيها، فأسمع بكاء الصّبيّ، فأتجوز في صلاتي، كراهية أن أشقَّ على أمّه» ([7]).
(میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طویل کروں، (لیکن جب) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں، اس کراہت سے کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔)
آپ ﷺ بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان کے خصوصی معاملات کے سلسلے میں ان سے گفتگو فرمایا کرتے تھے، اگرچہ کے بچوں کے معاملات معمولی ہوتے تھے، حضرت انس بیان کرتے ہیں : «كان النّبيّ -صلَّى الله عليه وسلم أحسن النّاس خلقًا، وكان لي أخٌ يقال له أبو عمير -قال: أحسبه- فطيم، وكان إذا جاء قال: يا أبا عمير، ما فعل النُّغَيْر؟» ([8]).
(نبی کریم ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھےِ میرا  ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہا جاتا تھا، (راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے اس کا دودھ چھٹ چکا تھا ) جب وہ آتا تو آپ فرماتے تھے: اے ابوعمیر تمہاری نغیر تو بخیر ہے۔(نغیرایک چڑیا تھی جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے)۔
بچوں کا احترام اور ان کی قدر کرنا:
نبی کریم ﷺ نے بچوں کے ساتھ لطیفانہ معاملات میں ان کے درمیان اپنے احترام کو باقی رکھتے ہوئے انہیں آسان اور ٹھوس وسائل کے ذریعے افضل ترین مفاہیم کو سمجھانے کی کوشش کی، آپ بچوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے، نبوی دور کا ایک بچہ عبداللہ بن عامر نبی کریم ﷺ کے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میری والدہ نے مجھے ایک دن بلایا اور نبی کریم ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ کہنے لگی: آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں، تو نبی کریم ﷺ نے میری والدہ سے کہا: آپ انہیں کیا دیں گی؟ فرمانے لگی: میں انہیں کھجور دینا چاہتی ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر آپ انہیں کوئی چیز نہ دیتی تو آپ پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ ( رواه أبو داود (4991) وحسنه الألباني.)
آپ ﷺنے مذکورہ واقعہ میں جھوٹ بول کر بچوں کے احساسات سے کھیلنے سے خبردار فرمایا۔
جب آپ ﷺ بچوں کو دیکھتے تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور ڈانٹ دپٹ نہیں فرماتے، عمر بن ابو سلمہ کہتے ہیں: «كنت غلامًا في حِجْر رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-، وكانت يدي تطيش في الصّحفة، فقال لي رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-: يا غلام، سم الله، وكل بيمينك، وكل ممّا يليك» ([10]).
(میں نبی کریم ﷺ کے گود میں ایک بچہ تھا، اور میرے ہاتھ برتن میں بے جگہ پڑتے تھے، تو نبی کریم ﷺ نے مجھے سے کہا: اے بچے: اللہ کا نام لو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ )۔
آپ ﷺ نے بچوں کی ان کے بچپن ہی سے رجولت اوربہادری کے مفاہیم کی بنیادوں پر اپنے اخلاق کریمانہ اور اپنی تعلیمات کے ذریعے تربیت فرمائی، آپ ﷺ مختلف طریقوں سے بچوں کو اعلی معانی ومفاہیم کے تدریجی گھونٹ پلاتے تھے۔آپ ﷺ کبھی کبھی بعض بچوں کو جیسے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کو اپنی مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے تاکہ وہ سیکھے اور ان میں پختگی آئے۔ عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: كنا عند النّبيّ -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم- فأُتِي بجُمَّار، فقال: إن من الشّجر شجرةً مثلها كمثل المسلم، فأردت أن أقول هي النّخلة، فإذا أنا أصغر القوم فسكتُّ، قال النّبيّ -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم-: «هي النّخلة» ([11]).
(ایک مرتبہ کا ذکر ہے ہم نبی ﷺ کے پاس بیٹھے تھے آپ ﷺ کے سامنے کجھور کا ایک گچھا لایا گیا، (جسے دیکھ کر) آپ ﷺ نے پوچھا درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی سی ہے بتاؤ! وہ کون سا درخت ہے؟ میرے دل میں آیا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے لیکن کم سنی کی وجہ سے شرما گیا اور خاموش رہا، آخر نبی ﷺ نے فرمایا وہ کجھور کا درخت ہے۔)
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس صغیرالسن تھے، اوروہ آپ کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے، تو آپ نے انہیں سادہ مفہوم پر مشتمل لیکن پراثر چند کلمات کی تعلیم دی، آپ نے فرمایا: «يا غلام، إنّي أعلمك كلماتٍ: احفظ الله يحفظك...» إلى آخر الحديث  ([12]).
(اے بچے: میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کو یاد رکھو، وہ تمہاری حفاظت کرے گا۔۔۔۔ )

آپ ﷺ بچوں کے احترام اور ان کی قدر کے سلسلے میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ کبھی بڑوں کی مجلس میں بچے شامل ہوتے تو آپ ﷺ بڑوں کے مقابلے بچوں کو ترجیح دیتے: حضرت سہل بن سعد الساعدی کہتے ہیں: إن رسول الله -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم- أُتِي بشرابٍ فشرب منه، وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ، فقال للغلام: «أتأذن لي أن أعطي هؤلاء؟ فقال الغلام: لا. والله! لا أوثر بنصيبي منك أحدًا» ([13]).
(رسول اللہﷺ کے پاس دودھ پینے کے لئے لایا گیا آپؐ نے پیا آپؐ کی داہنی طرف ایک لڑکا تھا (ابن عباسؓ) اور بائیں طرف عمر والے لوگ۔آپؐ نے لڑکے سے پوچھا میاں لڑکے تم اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں اس نے کہا نہیں قسم خدا کی یا رسولؐ اللہ میں تو اپنا حصہ جو آپؐ کا جھوٹا ملے کسی کو دینے والا نہیں آخر آپؐ نے وہ پیالہ اسی کے ہاتھ میں دے دیا۔)

آپ ﷺ نے ایک ساتھ دو امر کا خیال رکھا، آپ نے بچے کے حق  کاخیال رکھا اور اس سے اجازت طلب کی، نیز آپ ﷺ نے بڑوں کے حق کا بھی خیال رکھا اور بچے سے مطالبہ فرمایا کہ وہ بڑوں کے لئے اپنے حق سے بری ہوجائے، جب بچہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا تو آپ ﷺ نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ اس کے ساتھ سختی فرمائی بلکہ اسے اس کا حق دیدیا۔
بچوں کے خاندانی اور اجتماعی حقوق کی حفاظت:
نبی کریم ﷺ نے نومولود کے نسب،اور زواج صحیح سے اس کی پیدائش، نیز شرعی تعلقات کے بغیر بچوں کی عدم پیدائش جیسے حقوق کی حفاظت کا اہتمام فرمایا، اس طرح آپ نے بچوں کے مستقبل کی حفاظت فرمائی نیز آپ نے معاشرے کی پاکیزگی کو رذائل، فساد اور اختلاط انساب سے محفوظ فرمادیا۔
آپ نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں ہدایت دی کہ بچہ کا باب بچے کے لئے اخلاق حمیدہ کی حامل ماں کا انتخاب کرے، اسی طرح باب اس کا ایسا اچھا نام رکھے جس میں کسی قسم کا نقص نہ ہو،اسی طرح آپ ﷺ نے بچے کے فطری رضاعت اور بہترین ایمانی ماحول میں اسکی تربیت کا حکم دیا نیز آپ ﷺ نے بچوں کے حقوق کے سلسلے  میں یہ بتایا کہ والدین اسے جنسی اور بے دینی کے ماحول  سےمحفوظ رکھے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کے پیغام کے مطابق بچہ میراث اور وصیت کا حقدارہے،نیز شریعت محمدی نے یتیم بچے کی کفالت اور اس کی مکمل تربیت کی خوب تاکید کی ہے،اور یتیم بچے کے مال کی حفاظت پر زور دیا ہے نیز یتیم بچوں کی مدد کی ترغیب دی گئی۔
                                                                                                                                     ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
----------------------------------------------------------------------------------------

([1]) حسنه الألباني 3325 في السّلسلة الصّحيحة.

([2]) رواه البخاري (3071).

([3])متفقٌ عليه.

([4])رواه البخاري (6003).

([5]) متفقٌ عليه.

([6])متفقٌ عليه.

([7])رواه البخاري (868).

([8])متفقٌ عليه.

([9])رواه أبو داود (4991) وحسنه الألباني.

([10])متفقٌ عليه.

([11])متفقٌ عليه.

([12])رواه التّرمذي (2516) وصححه الألباني.

([13])متفق عليه.

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔