بدھ، 5 ستمبر، 2012

یہانتک کہ آپ مقبول بن جائیں۔۔۔

0 تبصرے


 

اس ذات کی تعریف ہے، جس کا فرمان ہے:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ۔ [الأعراف:31]
’’اے بنی آدم ہر نماز کے وقت اپنے آپ کو مزین کیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اور درود وسلام  ہونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر، اما بعد:
پیارے بھائی:
اللہ تعالیٰ کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں، جن میں سے ناک ایک نعمت ہے، جس سے ہم مختلف قسم کی اچھی اور بری بو سونگتے ہیں، میں ایک اہم سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ : لوگ اس شخص سے نفرت کیوں کرتےہیں جو اپنے بدن اور لباس کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا؟
جواب: کیونکہ گندا رہنا  اور نظافت کا خیال نہیں رکھنا، اسی طرح بدن اور کپڑوں کے سلسلے میں غفلت سے کام لینا بدبو کا باعث ہے۔ بدن کے مختلف حصوں سے بدبو نکلنےلگتی ہے، اگر انسان بدن کے بعض حصوں کی صفائی کرے اور بعض حصوں کو ترک کردےتو بھی بدبو سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
بدن  جب گرمی اور سخت محنت سے دوچار ہوتا تو اس کے نتیجے میں جسم کے تمام حصوں سے پسینہ نکلتا ہے، تاہم ہر انسان کا پسینہ اس کی حالت اور صحت کی وجہ سے کم زیادہ  ہوتا ہے۔اسی طرح  پسینہ کی بو کی قوت بھی  ہر انسان کے بدن کے حصوں سے نکلنے میں مختلف ہوتی ہے، یعنی کسی کے کسی حصے کے پسینے میں بدبو پیدا ہوتی ہے اور کسی انسان کے کسی اور حصے سے بدبو آتی ہے۔لہٰذا بدن کے تمام حصوں کی صفائی کا دوسروں سے زیادہ خیال رکھنا ضروری ہے۔
پیارے بھائی: ہم آپ کو بدن کے ان  اندرونی اور بیرونی حصوں سے آگاہ کررہے ہیں، جہاں سے بدبو خارج ہوسکتی ہے۔
۱۔ بغل :  یہ بدن کا وہ حصہ ہے جہاں سے سب سے زیادہ پسینہ خارج ہوتا ہے، لہٰذا اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے بغل کے بالوں کو نکالنے کا اہتمام کرنا چاہیے، جو شخص اپنے بغل کے بالوں اور صفائی کا خیال نہیں رکھتا ، اس سےایسی بدبو آتی ہے جو لوگوں کی تکلیف کا باعث بنتی ہے، اس کو دور کرنے کے لیے اس کےلیے مخصوص مواد کا استعمال بہتر ہےلیکن اس شرط پر کہ وہ نقصاندہ نہ ہو، شریعت مطہرہ نے بعض فطری عادتوں کے سلسلے میں تنبیہ کی ہے، جیسے زیرناف بالوں کا کتروانا، ناخن کا کٹوانا،بغل کے بالوں کا کتروانا وغیرہ تاکہ ایک مسلمان صورت وہیئت کے لحاظ سے خوبصورت اور پاک وصاف دکھائی دے۔
۲۔ منہ، اور منہ کے اندر کی چیزیں جیسے دانت، زبان اور مسوڑھوں کی صفائی کا اہتمام:
ہم مختلف چیزیں کھاتے ہیں، ہر کھانے والی چیز کا گذر زبان، دانتوں اور مسوڑھوں سے ہوتا ہے، لہٰذا کھانوں  کے بقیہ جات منہ میں جمع ہوجاتے ہیں، اگر غفلت اور کاہلی سے منہ کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہی کھانے کی بچی ہوئی چیزوں پر بیکٹریا  پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے، اور اس سے گندی بو آنے لگتی ہے، جسے خود وہی شخص سونگنا پسند نہیں کرتا، اور اس بدبو سے اس کے ارگرد والے لوگوں کو تکلیف ہونے لگتی ہے، دانتوں ، مسوڑھوں اور زبان پر جمع ہوا یہی مواد دانتوں کے خراب ہونا کا باعث ہوتا ہے، وسوسہ پیدا کرتا ہے، مسوڑھوں کو نقصان پہنچاتا ہے، لہٰذا جو شخص اپنے دانتوں  اور مسوڑھوں کی سلامتی چاہتاہے تو  اسے مندرجہ ذیل طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے:
الف۔ہر چند دنوں بعد دانتوں کے داکٹر کے پاس جائے اور اپنے دانتوں کا معائنہ کرائے۔
ب۔ہر وقت دانتوں کو  آگے سے ، پیچھے سے، اوپر سے اور نیچے سے مسواک سے صاف کرے، ساتھ میں سوتے وقت اور نیند سے بیدار ہونے پر ٹوتھ پیسٹ اور برش کا بھی استعمال کرے۔اور بعض موقع پر ماوتھ واش بھی استعمال میں لائے۔
ج۔ زبان کی صفائی کا خصوصی خیال رکھے،کیونکہ زبان کھانوں کو جذب کرتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان کا خصوصی خیال فرماتے تھے ؛ ابوموسی ؓ فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ  کچی مسواک کے ایک کونے سے اپنی زبان پر رگڑ رہے تھے، اور ’’اع اع‘‘ کہہ رہے تھے،مسواک آپ کے منہ مبارک میں تھی،(آواز ایسی تھی) گویا کہ آپ کو قئی  ہورہی ہے۔دیکھیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کے استعمال میں کتنا زیادہ اہتمام فرماتے تھے، حضرت حذیفہ ؓ کی حدیث میں وارد ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں جب بیدار ہوتے تو مسواک سے اپنے منہ کو صاف کرتے۔‘‘
مسلمان کے لیے مسواک سے اپنی زبان کا صاف کرنا سنت ہے، زبان کی صفائی کے لیے مخصوص طبی چمچا بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
د۔ سگریٹ نوشی سے دو رہیئے، کیونکہ اس کی وجہ سے  منہ سے نفرت آمیز بدبو آتی ہے، سگریٹ نوشی ناجائز امور میں سے ہے، سگریٹ نوشی متعدد بیماریاں پیدا کرتی ہے، سگریٹ نوشی کرنے والا اپنے اردگرد کے لوگوں کو تکلیف  پہنچاتا ہے، یاد رہے کہ سگریٹ نوش اپنے منہ سے نفرت آمیز بدبو چھوڑتا ہے۔
ابن جوزی ؒ اپنی ذات کے سلسلے میں غافل رہنے والوں سے متعلق کہتے ہیں: ’’ میں نے خودی سے غافل لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا،جو راز میں باتیں کررہے تھے، جب مجھ سے راز کے انداز میں بات کرنے لگے، تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان سے منہ پھیر لیا،ان کی منہ کی بدبو کی وجہ سے انہیں سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا، شاید ان میں سے اکثر نے نیند سے بیدار ہونے کے بعد سے ایک بار بھی اپنی انگلی کو زبان پر نہیں پھیرا تھا،  یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی حالت کے نتیجے میں عورت اپنے شوہر سے نفرت کرنے لگتی ہے، جس کا نتیجہ ایک دوسرے کی جدائی ہوتا ہے۔‘‘
۳۔ معدہ: جب انسان خراب  بو والی اشیاء کھاتا ہےتو یہ بدبو منہ کے راستے سے یا بغل میں پسینہ کے ذریعے خارج ہوتی ہے،اور باتوں کے دوران مخاطب کے لیے ایذارسانی  کا  باعث بنتی ہے، لہٰذا اس طرح کے کھانوں سے احتراز ضروری ہے، یا اگر کھائے تو اس کے بعد اس کی بدبو کو ختم کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز ضرور استعمال کرے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
من أكل البصل والثوم والكرات فلا يقربن مسجدنا ، فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم   ( صحيح البخاري : 855 ، الأذان / صحيح مسلم : 564 ، المساجد )
’’جو شخص پیاز ، لہسن اور گندنا کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اس لئے کہ فرشتے بھی ان چیزوں سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جن سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے‘‘۔
 ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھانا پیش کیا جاتا اور اس میں ان چیزوں میں سے کوئی چیز ہوتی تو آپ تناول نہیں فرماتے۔
آپ ہر وہ کھانا تناول کرنا پسند فرماتے تھے،جس سے منہ سے خوشبو آتی ہو اور جو  معدہ کے لیے بہتر ہو،کیونکہ معدہ خالی ہونے کے سبب بھی بدبو آتی ہے اور دوسروں کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے، ہاں اگر کوئی روزہ دار ہوتو اسے مسواک کا استعمال کرنا چاہیے۔
۴۔ چہرہ
ظاہر بات ہے چہرہ سب سے مقدم اور ایسا عضو ہے جسے ہوا، مٹی اور گردوغبار سے بچایا نہیں   جاسکتا ، فضا  میں اڑنے والی دھول اور گردوغبار چہرے پر جمع ہوجاتے ہیں۔لہٰذا چہرے کی صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے، وضو میں چہرے کے دھونے اور صفائی کی حکمت چہرے پر جمنے والی تکلیف دہ چیزوں کا زائل کرنا ہی ہے۔
۵۔ داڑھی اور مونچھ:
داڑھی اور مونچھ کے نیچے چھپی ہوئی جلد پر بھی دھول اور گندگی جمع ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بدن میں پیدا ہونے والے سیال مادوں سے بدبو نکلتی ہے ، لہٰذا چہرے کے دھوتے وقت اس مادے کی بھی صفائی ہوجاتی ہے، اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر نظر ڈالیں تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا داڑھی کے کنگا کرنے اور مونچھوں کے کتروانے میں اہتمام پاتے ہیں۔
۶۔ سر کی جلد اور بال: سر کی جلد کی چربی مردار خلیات کا مجموعہ ہوتی ہے،  جو شخص اپنے سر کی جلد کی صفائی پر توجہ نہیں دیتا ، اس سے گندی بو آنے لگتی ہے، لہٰذا  اس کے لیے مخصوص طبی ادویات کا استعمال ضروری ہے، جس سے سر میں پیدا ہونے والی گندگی دور ہوگی اور بدبو کا ازالہ ہوگا، اسی طرح سر کے بالوں پر بھی خصوصی توجہ دینا چاہیے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کے بالوں پر کنگی کیا کرتے تھے اور اس پر خاص توجہ دیا کرتے تھے، ۔میرے ماں باپ آپ پر قربان۔آپ کے بال غایت درجہ خوبصورت اور صاف ستھرے ہوتے تھے۔
۷۔لباس: مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنے کپڑوں اور لباس پر توجہ دے، بعض لوگ اللہ انہیں ہدایت دے، اپنے لباس اور کپڑوں  پر کوئی توجہ نہیں دیتے، ان کے لباس گندے ہوتے ہیں، کپڑوں پر پسینے کے اثرات ہوتے ہیں، اور ان سے کراہت آمیر بدبو پھوٹتی ہے، حالانکہ مساجد میں نماز کے لیے حاضری کے وقت  ہمیں زیب وزینت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم دیا گیا  ہے، یہ تمام احکامات اور ہدایات اس لیے ہے کہ مسلمان بہتر سے بہتر اور عمدہ وضع قطع اور لباس اور کپڑوں میں ہو،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لباس کی صفائی کا خیال فرماتے تھے، یہ سنت بھی ہے، بعض سلف سے مذکور ہے کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کے لیے زیب وزینت کا اہتمام کیا کرتے تھے، بعض حکما کا قول ہے’’ جس نے اپنے کپڑوں کو صاف رکھا، اس کے غم کم ہوگئے، اور جس نے خوشبو کا استعمال کیا اس کی دانشمندی میں اضافہ ہوا‘‘۔
۸۔بعض لوگ کسی بھی قسم کے عطر کا استعمال نہیں کرتے ہیں، جبکہ بعض لوگ بہت ہی تیز خوشبووالا عطر استعمال کرتے ہیں، جس سے دوسروں کو تکلیف ہونے لگتی ہے،لہٰذا ایسے عطر کا استعمال کرنا چاہیے جس کی خوشبو خفیف اور ہلکی ہلکی ہو، تاکہ آپ کا عطر آپ کے لیے باعث مذمت نہ ہو۔
ابن جوزی ؒ کے کلام سے خوبصورت تراشے ملاحظہ فرمائیں:
’’نبی کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ نظیف  اور پاک وصاف تھے،آپ اپنا ہاتھ مبارک اٹھاتے تو آپ کے بغل  کی چمک ظاہر ہوجاتی، اور جب آپ کی پنڈلیاں  ظاہر ہوتی تو ایسا لگتا جیسے چنگاری ہے۔‘‘
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک کبھی نہیں چھوٹتا تھا، آپ کو ناپسند تھا کہ آپ کے منہ سے بدبو ظاہر ہو‘‘۔
’’مسواک کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز کو بغیر مسواک کیے نماز پر فضیلت عطا کی گئی، لہٰذا صاف ستھرا رہنے والا اپنے نفس  کی نعمت سے لطف اٹھاتا ہے ‘‘۔
’’مرد صفائی کی وجہ سے اپنی بیوی کو مانوس کرتا ہے، کیونکہ عورتیں مردوں  کے بالکل مخالف ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ مرد عورت کی کسی چیز کو ناپسند کرے، اسی طرح عورت مرد کی کسی چیز کو ناپسند کرے، لیکن مرد کبھی عورت کی کسی چیز پر صبر کرلے لیکن عورت اس کی کسی چیز پر صبر نہ کرسکے۔‘‘
ابن عباس ؓ فرماتے تھے: ’’ میں چاہتا ہوں کہ عورت کے لیے  خود بھی زیب وزینت اختیار کروں، جس طرح میری خواہش ہوتی ہے کہ  عورت میرے لیے زیب و زینت اختیار کرے‘‘۔
’’وہ عقلمند انسان بُرا ہے جو اپنے آپ کے سلسلے میں لاپرواہ ہو‘‘۔
’’شریعت نے ہر مسلمان کو بعض چیزوں کو مکمل طور پر کرنے کی تنبیہ دی ہے، لہٰذا ناخن کتروانے، بغل اور زیرناف بال کے کتروانے کا حکم دیا،  اور بدبو کی وجہ سے پیاز اور لہسن سے منع کیا۔(پیاز ولہسن سے ہم دیگر بدبو دار چیزوں کو بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں جیسے سگریٹ نوشی وغیرہ)، اسلام  میں غایت درجہ صفائی اور انتہاء درجہ کی زینت  مطلوب ہے۔
’’نبی کریم ﷺ اچھی چیز پسند فرماتے تھے‘‘۔
پیارے بھائی: یہ بات بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کو براہ راست یا بلا واسطہ طور پر اسے اس کی بدبو کے سلسلے میں نصیحت کرے،لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بدن کی اندرونی اور بیرونی طور پر مکمل صفائی اور نظافت کا خیال رکھے، تاکہ رب تعالیٰ سے مناجات کے وقت اور اپنے بھائیوں کے سامنے وہ بہتر سے بہتر شکل میں دکھائی دے۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے کی توفیق دے، اور ہمیں اپنے پرہیزگار بندوں میں شامل فرمائے۔
درود وسلام ہو نبی پاک ﷺ پر۔
اعداد: عبدالرحمن بن محمد الیحی
مراجعہ: ڈاکٹر حمدی عبدالحمید علوان، ڈاکٹر فتحی موسی، ڈاکٹر احمد محمد علی، ڈاکٹر محمد محمود ابوالیزید
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔