منگل، 4 ستمبر، 2012

0 تبصرے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس رسالے کو پڑھ لیجیے:
قبل اس کے کہ آپ مسجد میں داخل ہوں:
خبردار۔ خبردار۔ خبردار
اللہ کے گھر میں آپ کے موبائل کے ذریعے نغموں  اورموسیقی  کی آوازیں نہ گونجے



اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی ہم پر یہ نعمت ِعظمٰی ہے کہ اُس ذات نے مصنوعی اختراعات کے ذریعے سفر کی تھکاوٹوں اور پریشانیوں کو دور کردیا، لمبی لمبی مسافات کو قریب کردیا، حال یہ ہے کہ مواصلات اور رابطوں کی سہولیات کی وجہ سے یہ دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں ایک بستی اور گاؤں کی مانند ہوگئی ہے، یہ جدید اختراعات اور مصنوعات ہمارے لیے الہٰی نعمتیں ہیں جن کا شکر بجالانا ہمارے لیے ضروری ہے، کہ اس ذات نے ہمیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا اہل بنایا، جدید اختراعات میں بے شمار فوائد کی حامل نعمت جو ہے وہ ’’ موبائل فون ‘‘ ہے، جس نے ایسی لمبی لمبی دوریوں کو قربت میں تبدیل کردیا جس کا ہمارے اسلاف عہد قریب میں گمان بھی نہیں کرسکتے تھے،  اس اختراع نے کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ براہ راست رابطہ کرنے کی سہولت پیدا کردی، چاہے خشکی میں ہو تری میں ہو یا فضا میں، اس آلہ کے ذریعے ہم اپنے کاموں کو آسان کردیتے ہیں، اپنی ضرورتوں کو پوری کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس آلے کی اختراع کا فائدہ صرف کسی ایک تجارتی جماعت یا سیاسی اور اقتصادی جماعت تک محدود نہیں ہے،  بلکہ اس نعمت سے اس کے سہولتِ استعمال اور دستیابی کی وجہ سے معاشرے اور سماج کا ہر فرد  بالکل معمولی قیمتوں کے بدل لطف اٹھارہا ہے۔
لیکن ہمیں ہمارے اسلاف کے زمانے کو نہ بھولنا چاہیے، جس زمانے میں رابطے کےذرائع صعوبت سے خالی نہیں تھے،اس زمانے میں ایک مختصر پیغام کو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے کے لیے ہفتوں لگ جاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ’’لینڈ لائن فون  ‘‘ کے آلے کی نعمت عطا کی، لیکن اس آلے سے بھی ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک رابطہ کرنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنا پڑتا تھا،لیکن آج کی صورتحال بالکل مختلف ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم سے آج ہمارے گھروں میں وہ آلہ موجود ہے جس کے ذریعے ہم انٹرنیشل کال کرسکتے ہیں، یقینا یہ ایسی نعمت ہے جس پر اللہ رب العالمین کا شکر بجالانا ضروری ہے، نہ کہ ناشکری اور انکار کا طریقہ اپنا نا چاہیے، یہ بات کوئی نئی نہیں ہے کہ انسانوں میں بہت کم شکر کرنے والے نظر آتے ہیں، اور کثرت سے ایسے افراد موجود ہیں جو انکارخداوندی اور ناشکریِ رب  پر جمے ہوئے ہیں۔
ہر جدید اختراع اپنے تئیں  جائز اور ناجائز استعمال کا حکم رکھتی ہے، مثال کے طور پر چھری ہے،جس کے بے شمار فوائد ہیں، جس  سے کوئی شخص بھی بے نیاز نہیں رہ سکتا ، لیکن اس کے اُسی وقت فوائد ہیں جب اس کا استعمال صحیح ہو، اور جس مقصد کے لیے اسے بنایا گیا اسی مقصد کے لیے کام میں لایا جائے، لیکن بسا اوقات ہم چھری کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے عظیم کام کا ارتکاب کرلیتے ہیں، حالانکہ چھری اس لیے نہیں بنائی گئی تھی۔ 
اس رسالے میں ہم موسیقی اور نغموں والے موبائل فون کے استعمال کے غلط طریقوں سے آگاہ کررہے ہیں، چونکہ موبائل اب ایک عادی شئی بن گئی، اس کا استعمال صرف گھر ، شاہراہ اور کام تک محدود نہیں رہا بلکہ  موبائل کی آواز  اب اللہ کے گھروں کے اندر ہمارے کانوں میں گونجنے لگی ہے۔
کچھ زمانے پہلے ہم مساجد میں قرآن کریم، حدیث نبوی ﷺ، دینی لیکچرز ، دروس، ذکر کے حلقے اور حفظ قرآن کے حلقوں کی آوازوں کے علاوہ کوئی چیز سننا تصور میں بھی نہیں لاسکتے تھے،لیکن آج ہمارے زمانے میں روز افزوں ترقی اور سہولیات کی وجہ سےاللہ کے مقدس اور پاک  گھر انواع واقسام کی موسیقیوں سے گونجنے لگے ہیں، رحمن ورحیم کے کلام میں موسیقی اور شیطانی آواز کی ملاوٹ ہونے لگی ہیں، جس کے نتیجے میں نمازیوں میں غفلت، عدم خشوع اور خضوع بڑھتا جارہا ہے۔نغموں کی آواز پر سیدھے سادے نماز ی ان شیطانی آوازوں کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، تو پتہ چلتا ہے کہ اس چھوٹے سے آلے سے یہ آوازیں گونج رہی تھیں، جسے موبائل کہا جاتا ہے، جس کے غلط استعمال سے نمازیوں کے خشوع وخضوع اور خالق ومالک کے سامنے تضرع میں خلل واقع ہوا،اور امام پر آیت قرآنی کی تلاوت میں خلل پیدا ہوا، اورخبیث شیطانی آوازوں کی وجہ سےاللہ تعالیٰ کے فرشتے جو نمازیوں کو پیرہ دے رہے تھے بھاگنے لگتے ہیں ۔
امام جب قرآن کی آیات کی تلاوت کرتا ہے تو پہاڑ ، وادیاں، پرند وچرند اور حجر وشجر کانپنے لگتے ہیں، یہی حال بعض نمازیوں کا  ہوتا ہے، لیکن موبائل کی گھنٹیاں اس خشوع وخضوع کو ختم کردیتی ہیں، اور پھر شیطان اور اس کے مددگار بنی آدم پر اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے گھومتے ہیں، اعلان کرتے ہیں کہ انھیں قرآن کریم کے ساتھ اپنی آوازوں کی ملاوٹ میں کامیابی حاصل ہوگئی۔
ہمارے موبائلوں کی مساجد میں بجنے والی گھنٹیاں شیطان کے لیے سب سے بڑی مدد ثابت ہوتی ہے، شیطان نے ایسے طاہر وپاک جگہ پر اپنا قبضہ جمالیا ہے، جس کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا، شیطان کی زبان اب تک سینما گھروں، فنکش ہالوں اور  خمارخانوں میں بولی جاتی تھی اب اسی زبان کا ہماری پاک وصاف مساجد میں چرچا ہے۔
شیطان کیوں اپنی کامیابی کا اعلان نہیں کرے گا، اس نے تو ہم تک جوش دلانے اور رنگ برنگ کی موسیقی ، جذبات کو ابھارنے والے نغمے اور گانے پہنچادیئے ہیں۔ اور یہ چیزیں پہنچانے کا ذریعہ اور آلہ آپ کا یہی موبائل ہے۔جس کے ذریعے اب:
·       شیطان  اور اس کی جماعت کی آوازیں اور مزامیر بجتے ہیں۔
·       وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا۔
·       وہ آوازیں گونجتی ہیں جن سے شیطان اور اس کے چیلوں کو خوشی ہوتی ہے اور رحمن ورحیم کے غصہ کا باعث بنتی ہے۔
·       اس آلے سے کنیساؤں اور گرجا گھروں کی گھنٹیاں ہماری مسجدوں میں بجنے لگی ہیں۔
اس آلے کے ذریعے شیطان  عام انسان  خاص طور پر مسلمان کو اغواء کرکے اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہتا ہے، وہ اس آلے کے ذریعے انسان کو ہدایت کی راہ سے دور پہنچانا چاہتا ہے، رب تعالیٰ سے اس نے کہا تھا:
’’کہنے لگا کہ مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا۔سوائے ان کے جو تیرے چنے ہوے بندے ہیں۔‘‘
اے رحمن کے بندو! اے وہ لوگو جو اس آلے کے ساتھ مساجد میں حاضری دیتے ، خبردار!کہیں ربِ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہوجائے، کہیں اس کے غصے سے زمین نہ ہل جائے اور آسمان نہ پھٹ پڑے،اور کہیں ہم بھی اس عذاب کے شکار نہ ہوجائے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے: آپ ﷺ نے فرمایا:
 ’’لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ‘‘
’’قیامت اس وقت قائم ہوگی، جب علم اٹھالیا جائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، زمانے قریب ہوجائے گا، فتنے ظاہر ہونگے، اور اضطراب وبے چینی بڑھ جائے گی۔ اور یہ اضطراب وبے چینی قتل ہے قتل ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ۔ [لقمان]
’’اور لوگوں میں بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ لوگوں کو بے سمجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے ہنسی کرے۔یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔‘‘
فون کی گھنٹی کی آواز سے فرشتے ؛مساجد اور ہمارے گھروں سے دور چلے جاتے ہیں۔مجھے اس برس مسجد حرام میں حاضری کا شرف حاصل ہوا، میں نے مسجد حرام کے ہر کونے سے فونوں کی گھنٹیاں گونجتی ہوئی سنی،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ( 25 ) .
’’جو لوگ کافر ہیں اور لوگوں کو اللہ کے رستے سے اور مسجدِ حرام سے جسے ہم نے لوگوں کے لیے یکساں عبادت گاہ بنایا ہے روکتے ہیں خواہ وہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے۔ اور جو اس میں شرارت سے کجروی وکفر کرنا چاہے تو اُس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘[حج]
موبائل ٹون، گھنٹیاں، ، نغمے اور موسیقی مساجد میں حرام ہیں ، کیونکہ یہ جگہیں پاک وصاف اور عبادت کی جگہیں ہیں۔
مسجد میں اللہ رب العزت کی مختلف طریقوں سے عبادت کی جاتی ہے، مثال کے طور پر کوئی قرآن کریم کی معانی کے تدبر کے ساتھ تلاوت کررہا ہوتا ہے، کوئی نماز کے انتطار میں بیٹھا ہوتا ہے، اور کوئی رب ذوالجلال کی قدرت میں غور کررہا ہوتا ہے، اور کوئی اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتا ہے، آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور وہ اپنے اللہ سے جنت اور استقامت کا سوال کررہا ہوتا ہے۔
جبکہ کوئی شخص مساجد کے کسی کونے میں اپنے موبائل فون کے ذریعے نغمے اور موسیقی کی آواز بلند کرتا ہے، جس کی وجہ سے  اُن مسلمان بھائیوں کے خشوع اور خضوع  اور اللہ سے اپنے رابطے میں خلل واقع ہوتا ہے۔
اے موبائل والو! کیا تمہیں معلوم ہے:  مساجد کے عابدین جب ان شیطانی نغموں کو سنتے ہیں تو کیا کہتے ہیں؟  وہ کہتے ہیں ’’ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے‘‘  وہ کہتے ہیں: ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ یا پھر ان کی زبان سے نکلتا ہے: ’’اللہ تجھے ہلاک کرے‘‘ یا پھر اس طرح کہتے ہیں: ’’اللہ تجھ سے انتقام لے‘‘
یہ ایسی دعائیں ہیں ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس دعا کی وجہ سے اللہ تمہیں دنیا میں جلد عذاب دے یا پھر آخرت میں سزا دے۔
اے موبائل رکھنے والو! یقینا باجماعت نماز پڑھنے کے لیے تمہارا مسجد جانا ایک نعمت ہے، جس پر پابندی کرنا ضروری ہے، تاکہ تم جہنم سے بچ کر جنت کے مستحق قرار پاؤ، لیکن تمہارے موبائل فون اعمال ِصالحہ کے کرنے میں رکاوٹ نہ ثابت ہو۔
نماز کے دوران امام کو بغور سننا اور تلاوت کے دوران خاموش رہنا ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ [اعراف]
’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
ابن کثیر فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے تلاوت کے وقت تعظیما اور احتراما خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا، اور کفار قریش کے طریقہ کار کو اختیار کرنے سے منع فرمایا، وہ کہتے تھے:
’’اورکافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور جب پڑھنے لگیں تو شورمچادیا کرو تاکہ تم غالب رہو۔‘‘
آپ شیطانی نغموں کے ذریعے نمازیوں کو ایذا نہ پہنچائے، موبائل فون کو مساجد میں نہ لےجائیں، بلکہ مسجد میں داخل ہونے سے قبل اپنی گاڑی میں کسی جگہ رکھ دیں، اور شیطان کو اپنے آپ پر مسلط نہ ہونے دیں۔
مساجد میں نغموں، موسیقی اور گھنٹیوں کی آوازوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، آپ کا ارشاد گرامی ہے: اختلاف نہ کرو، تمہارے دل بدل جائیں گے، اور بازاروں کی آوازوں سے اپنے آپ کو بچاؤ۔[ابوداؤد]
مسجدیں  وہ گھر ہیں جو نمازیوں کے دلوں میں اِس زمانے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو نکالنے کا عزم اور جوش پیدا کرتی ہیں، تو کیا ہم مسجدوں کی آواز پر لبیک کہیں گے اور اپنے موبائل فون بند کریں گے؟ ہمیں آپ سے یہی امید ہے ۔
یہ چیز اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔۔وصلی اللہ علیہ محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
تحریر: ڈاکٹر احمد بن عبدالعزیزالحصین
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
عربی متن کے لیےدیکھیے:





0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔