بدھ، 15 اپریل، 2020

0 تبصرے

دعوت دین 25 اہم باتیں

تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (تیسری قسط)
  

***
 ۸- انتشار پسندوں اور نافرمانوں کی کثرت اور غلبے کو دیکھ کر ہمت نہ ہارے:
لوگوں میں سے اکثریت کے نافرمانیوں اور گناہوں میں ملوث ہونے پر داعی کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے، بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ اللہ تعالی ٰکے فرماں بردار بندے کم ہی ہوتے ہیں،اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح کردیا ہے کہ نافرمان اور گمراہ لوگ زمین میں اکثریت میں ہوتے ہیں اور شکر گذار اور فرماں بردار اقلیت میں ہوتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ۔(سورۃ سبا)  ( اور میرے شکرگذار بندے کم ہیں)، اور ارشاد ہے: وَإِنْ تُطِعْ أَکْثَرَ مَنْ فِي الأَرْضِ یُضِلُّوك عَنْ سَبِیلِ اللهِ۔ (سورہ الانعام: ۶۱۱)  ( اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں گے)۔
لہٰذا داعی کے ہاتھ میں نہ کوڑا ہواور نہ ڈنڈا بلکہ داعی کو محبت اور نرمی کے ساتھ لوگوں کو ایسی جنت کی دعوت دینے کی ہدایت دی گئی ہے جس کی وسعت آسمان وزمین کے برابر ہے، اگر لوگ بات مانتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر وہ انکار کرتے ہیں تو ان کے معاملے کو اللہ کے حوالے کردے۔ بعض علماء نے کہا ہے: روئے زمین پر کفار مسلمانوں سے زیادہ ہیں، اہل بدعت اہل سنت سے زیادہ ہیں اور اہل سنت میں مخلص بندے،  غیر اخلاص والوں سے کم ہیں۔
داعی کی یہ خوبی ہے کہ وہ لوگوں کے احوال اور ان کے طرز زندگی سے واقف رہتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:  وَکَذَلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِینَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِینَ۔ (الأنعام)  ترجمہ: ”اسی طرح ہم آیات کی تفسیر کرتے رہتے ہیں تاکہ مجرمین کا طریقہ واضح ہوجائے“۔ اللہ تعالی کی یہ حکمت تھی کہ اس نے اپنے رسول ﷺ کو مکہ میں چالیس سال رکھا، جہاں آپ نے مکہ کی وادیوں میں زندگی کے اہم دن گزارے، مکے میں قیام کے دوران آپ ﷺ مکے کے لوگوں کے طرز زندگی اور ان کے مسائل سے بخوبی واقف ہوچکے تھے، آپ کو اہلِ مکہ کے گھروں اور خاندانوں کا علم تھا یہی وجہ ہے کہ کفار نے آپ کی نبوت پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا:  لَوْلا أُنزِلَ عَلَيه مَلَک۔(سورۃ الأنعام) کہ آپ ﷺ کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ انسانوں کے لیے پیغمبر کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ان ہی میں سے ہی کوئی انسان ہو، جو لوگوں کے درمیان رہا ہو، ان کے دکھ درد اور مسائل کو جانتا ہو اور ان کی ضروریات سے واقف ہو۔اس لیے داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات کو پڑھے، اپنے معاشرے سے مستفید ہو، ملک کے حالات سے واقفیت رکھے، ملک میں جاری مسائل سے باخبر رہے، بلکہ چیزوں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا بھی علم رکھے، اسے تاجروں، کسانوں، لوگوں کے طبقات، ملک کے مقامات، بازاروں، جامعات اورکھیل کے کلبوں کا بھی علم رہے۔اسی لیے اہل علم نے کہا ہے کہ داعی کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی ملک جائے تو اس ملک کی تاریخ پڑھے، ہمارے بعض علما ء جب کسی دوسرے شہر یا ملک کا سفر کرتے تھے تو وہ اس ملک کی تاریخ، اس کا جغرافیہ، اس ملک کے پارک، ملک اور شہر کا ماحول ومزاج اور اس شہر اور ملک کے لوگوں کی طرز زندگی اورپسند وناپسند اور اس شہر اور ملک میں تربیت کے انداز سے واقفیت حاصل کرتے تھے تاکہ پورے یقین اور حکمت کے ساتھ اس ملک اور شہر کے لوگوں کے سامنے دین کی باتیں رکھ سکیں۔
۹-کتاب اللہ کی تعلیمات سے تجاوز نہ کرے:
بعض واعظین اور داعی حضرات دین کے سلسلے میں حد سے زیادہ فکر مند ہوجاتے ہیں اور دین کے بارے میں ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں جو قرآن وحدیث میں نہیں ہیں، جب وہ کسی گناہ کی بات کرتے ہیں تو اس کی سزا کی مقدار خدا کی بتائی ہوئی مقدار سے زیادہ بیان کر بیٹھتے ہیں، اگر کسی کو سگریٹ نوشی سے منع کرنا ہوتو مثال کے طور پر زبان سے اس طرح کے الفاظ نکال دیتے ہیں: (اے اللہ کے بندے! جس نے سگریٹ پی اللہ نے اس پر جنت حرام کردیا ہے)داعی کی اس طرح کی حرکت ایک بڑی غلطی ہے، اس لیے کہ شریعت میں ہر چیز کا ایک پیمانہ ہے، مثال کے طور پر شرک؛جس سے ایک مسلمان ملت سے نکل جاتا ہے، اسی طرح گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ ہیں، مباحات ہیں، الغرض اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک مقدار طے کر رکھی ہے۔ داعی کو ان سب چیزوں کو ہر وقت مد نظر رکھنا چاہیے۔
۱۰۔   لوگوں کو ان کا مقام دے:
داعی کے لیے چاہیے کہ وہ لوگوں کے مقام ومرتبہ کا خیال  رکھ کر ان سے ہم کلام ہو، سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، اگر عالم دین ہے تو اس کا ایک مقام ومرتبہ ہے، معلم کا ایک مقام ہے، قاضی کا ایک مقام ہے، اس طرح ہر ایک کا اپنا ایک مقام ومرتبہ ہے، اسی وجہ سے قرآن مجید نے   قَدْعَلِمَ کُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبهم کہہ کر اس جانب اشارہ کیا، لہٰذا لوگوں میں سب لوگ ایک مقام ومرتبہ کے حامل نہیں ہوتے۔ یہ بات لوگوں میں تفریق کی نہیں ہے، بلکہ یہ تو اسلام کے آداب میں سے ہے، کیونکہ ہر فرد کے ملنے جلنے کا انداز، مہمان نوازی، طبیعت اور مزاج میں اختلاف ہوتا ہے۔لہٰذا لوگوں کو ان کا مقام ومرتبہ دینا حکمت ہے اور داعی کو اس خوبی سے آراستہ ہونا چاہیے، نبی کریم ﷺ خود لوگوں کے مقام ومرتبے کا خیال فرماتے تھے۔(صحیح مسلم، مسند ابوداؤد)
۱۱ – داعی۔ اپنا محاسبہ کرے اور خدائے تعالی کے سامنے گڑگڑائے:
داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے قول وفعل کا جائزہ لیتا رہے اور اپنے کاموں کا محاسبہ کرتا رہے کہ اس نے؛ لوگوں کو جو کہا یا کہتا ہے کیا وہ خود اس پر عمل پیرا ہے یا نہیں؟ اور محاسبے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے، جب کسی سے دین کی بات کرے تو پہلے اللہ تعالیٰ سے قبولیت اور ہدایت مانگے۔ خصوصا ًدین کی بات کرنے سے پہلے احادیث میں مذکور یہ کلمات کہنا زیادہ مؤثر ہے:  اللهم بِكَ اَصُولُ، وَبِكَ اَجُولُ، وَبِكَ اُحَاوِلُ(اے اللہ! میں تیرے ہی نام کی برکت سے شروع کرتا ہوں، تیرے ہی نام کی برکت سے حرکت کرتا ہوں اور تیرے ہی نام کی برکت سے کوشش کرتا ہوں)۔
ہمارے علماء کرام جب درس دیتے تو اسی دعا سے شروع کرتے تھے، اور بعض علما ء یہ بھی دعا پڑھا کرتے تھے: اللهم افتَحْ عَلَيّ مِنْ فُتُوحَاتِك(اے اللہ اپنی فتوحات کو مجھ پر کھول دے)۔اگر انسان اپنی صلاحیتوں، قابلیت، یادداشت اور آواز پر بھروسہ کرلے تو خدائی مدد کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں، لہٰذا اللہ کے سوا مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔اس لیے داعی جب منبر پر چڑھے تو پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اسے صحیح بولنے کی توفیق دے اور سیدھے راستے کی ہدایت عطا کرے اور اس کی بات سے لوگوں کو نفع پہنچائے اور اس کے دل میں اچھی بات ڈالے۔


0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔