بدھ، 30 جولائی، 2025

بچوں کا 13 سال سے کم عمر میں فون کا استعمال خودکشی کے خیالات کا سبب بن سکتا ہے: سی این این کی تازہ رپورٹ 29-07-2025 کی روشنی میں

آج کا انسان، جو خود کو ترقی کے ہر میدان میں فاتح سمجھتا ہے، ایک ایسے جال میں پھنس چکا ہے جس نے اس کی آنے والی نسلوں کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ یہ کیسا دور آیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو تحفظ دینے کے بجائے خود اپنے ہاتھوں سے ایک ایسے فتنہ میں دھکیل رہے ہیں جس کا نام اسمارٹ فون ہے۔ یہ فتنہ نہیں، ایک زہر ہے جو ہمارے بچوں کے دماغوں میں اتر کر ان کی سوچ کو مفلوج کر رہا ہے۔

سی این این کی تازہ رپورٹ نے پھر ایک بار اس تلخ حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ 13 سال سے کم عمر کے بچوں کا موبائل فون کا استعمال، خودکشی جیسے انتہائی مہلک خیالات کو جنم دے رہا ہے۔ یہ ایک چیخ ہے جو اس بے حس معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمارے اپنے لختِ جگر اس مجازی دنیا کے تاریک گڑھے میں گر رہے ہیں اور ہم بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں؟

یہ وہ معاشرہ ہے جہاں ایک طرف ترقی کے گیت گائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے مستقبل کی عمارت کی بنیادوں میں سوشل میڈیا کا کیڑا لگ چکا ہے۔ جوناٹن ہائیڈٹ جیسے ماہرین کی آوازیں اس صحرا میں اذان کی مانند ہیں کہ 16 سال سے پہلے بچوں کو اس مہلک طلسم سے دور رکھو۔ مگر افسوس! والدین خوفزدہ ہیں کہ کہیں ان کے بچے اس ہجوم میں اکیلے نہ رہ جائیں۔ یہ کوئی اکیلا پن نہیں، یہ ایک ذہنی اور روحانی بیماری ہے جس سے بچانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ یہ ہے وہ عظیم جہاد جس کی صدا آج کی خاموش نسلوں کو چاہیے، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

جوناٹن ہائیڈٹ کی کتاب :

The Anxious Generation: How the Great Rewiring of Childhood Is Causing an Epidemic of Mental Illness.


اتوار، 20 جولائی، 2025

 



 

داعی اسلام علامہ  شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص شیخ عبدالوہاب حلبی ندوی ؒ  بروز ہفتہ 19 جولائی  2025   کو  اپنے رفیق اعلی سے جاملے، کویت کے مشہور میگزن المجمتع نے شیخ رحمہ اللہ کا اسی برس اپریل میں ایک خصوصی انٹرویو لیا تھا، اردو داں طبقے کے لیے ہم نے اس انٹرویو کو جوں کا توں اردو میں منتقل کیا ہے،  دعوت کے میدان سے وابستہ ہر شخص اس انٹرویو کو ضرور پڑھے اور اپنے احباب تک اسے ضرور پہنچائے ۔(مترجم)

جنوبی کوریا کے مفتی اعظم

داعی اسلام شیخ محمد عبدالوہاب زاہد الحق حلبی   ندوی ؒسے

 معروف عربی میگزن "المجتمع" کا  بصیرت افروز خصوصی انٹرویو

(10 اپریل 2025)

****

"دعوتِ دین کا بار امانت اٹھائے، انھوں نے اپنے وطنِ عزیز سے رختِ سفر باندھا۔ علمی تشنگی اور ہدایت کی شمع لیے ملکوں ملکوں کا سفر کیا، اور بالاخیر تقدیر نے انہیں جنوبی کوریا کی سرزمین پر لا بسایا۔ وہاں انہوں نے ربِ کریم کی طرف دعوت دینا اپنا مشن بنایا، اور اپنے بے پناہ اخلاص اور ایمانی بصیرت سے سینکڑوں دلوں کو نورِ ایمان سے منور کردیا۔ یہ بلند ہمت، شامی نژاد داعی شیخ محمد عبدالوہاب زاہد الحق ہیں، جو آج جنوبی کوریا کے مسلمانوں کے مفتیِ اعظم کی حیثیت سے سراپا رہنمائی بنے ہوئے ہیں۔ معروف مجلہ 'المجتمع' نے حال ہی میں ان سے ایک بصیرت افروز گفتگو کا شرف حاصل کیا۔"

سب سے پہلے قارئین کو اپنا تعارف کروانا چاہیں گے؟

میرا نام محمد عبدالوہاب زاہد الحق ہے۔ میں شام سے ہوں، اور 1941 میں حلب شہر میں پیدا ہوا۔ میں نے شرعی علوم حاصل کیے، پھر ہندستان کا سفر کیا جہاں لکھنؤ میں عظیم ہندستانی داعی ابو ال علی حسن ندوی کے زیرِ سایہ تعلیم حاصل کی، میں ان کے اہم شاگردوں میں سے ایک تھا۔ اس کے بعد میں پاکستان گیا، اور وہاں کے نمایاں علماء سے فقہ و حدیث میں اجازت حاصل کی۔ میں نے کراچی یونیورسٹی سے فرسٹ پوزیشن کے ساتھ ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی، پھر حیدرآباد، سندھ یونیورسٹی سے فقہ مقارن (تقابلی فقہ) میں ڈاکٹریٹ کی۔ وہاں میں نے اپنی کتاب "فقہ الأئمة الأربعة" مکمل کی، پھر مصر کا رخ کیا اور الازہر کی کلیہ اصول الدین سے گریجویشن کی۔

اس کے بعد، میں نے حلب کی جامع البختی میں امام اور خطیب کے طور پر کام کیا، پھر اسی شہر کے دارالافتاء میں مدرس کے طور پر، پھر عفرین میں شرعی مدرسہ کے ڈائریکٹر کے طور پر، پھر مکہ مکرمہ میں ام القریٰ یونیورسٹی اور طائف کی کلیہ الشریعہ میں اسلامی فقہ کے پروفیسر کے طور پر، پھر کراچی، پاکستان میں الفاروقیہ یونیورسٹی میں شعبہ اعلیٰ تعلیم کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔

جنوبی کوریا کے انتخاب کی کیا وجہ رہی؟

مکہ مکرمہ میں کام کے دوران کویت کی وزارت اوقاف نے مجھے فقہی انسائیکلوپیڈیا  کے کام میں شرکت کی پیشکش کی اور میں 1982 میں کویت چلا گیا۔ وہاں اتفاق سے جنوبی کوریا کے ایک وزیر کویت کے دورے پر تھے۔ انھوں نے اپنے دورے کے دوران کویتی برادران سے کہا: "کوریا کے لوگ کفر کی حالت میں مر رہے ہیں، آپ لوگ کیوں نہیں آتے اور کوریا کے لوگوں کو اسلام کی دعوت  کیوں نہیں دیتے؟ کویتی وزیر اوقاف نے یہ خبر ہمیں سنائی، تو میں پرجوش ہو گیا اور میں نے کہا: "میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔"  لیکن بدقسمتی سے، میری درخواست مسترد کر دی گئی، لیکن میرے اصرار اور جذبے کی وجہ سے  مجھے سفر کی منظوری مل گئی، البتہ مجھے ان تمام کاموں  کو مکمل کرنا ضروری تھا جن کا میں انچارج تھا، لہذا دو سال بعد خاص طور پر 1984 میں میں کوریا چلا گیا، اور وہاں میں نے کوریا کے لوگوں  کو اسلام کی دعوت دینے کا اپنا مشن شروع کیا۔

وہاں دعوت کا آغاز کیسے ہوا؟

جب میں کوریا   پہنچا اس وقت کوریا میں صرف 3 مسجدیں تھیں؛ سیول میں ایک مسجد جسے کورین مسلمانوں کے اتحاد نے بنایا تھا، گوانگجو شہر میں ایک مسجد جسے کویت کے  معاون وزیر اوقاف نے بنایا تھا، اور بوسان شہر میں ایک تیسری مسجد جسے لیبیا کی دعوت ایسوسی ایشن نے تعمیر کیا  تھا۔

کوریا پہنچنے کے بعد کورین مسلمانوں  کی یونین نے دو افراد کو میرے ساتھ دعوت کے کام میں شامل ہونے کی ذمہ داری سونپی، ان میں سے ایک عربی بولتا تھا جس کا نام قمر الدین مون سی جو تھا، اور دوسرا انگریزی بولتا تھا۔ یہ دونوں افراد دعوتی مشن کے آغاز میں میرے ساتھی تھے، اور میں نے ان کے ساتھ کوریا کے تمام علاقوں میں سفر کرنے کا پروگرام بنایا۔ ہم ہفتے میں 5 دن سفر کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے کوریا کے بہت سے باشندوں کو ہدایت دی۔ میں عربی میں ان کو سمجھاتا تھا اور وہ کوریائی زبان میں ترجمہ کرتے تھے۔

کورین مسلمانوں  کی یونین کی جانب سے اکثر کوریائی خاندانوں کو اسلام کی دعوت کی نشستوں میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ ایک بار ایک نشست کے بعدایک 12 سالہ بچہ میرے پاس آیا اور اسلام قبول کرنا چاہا، تو میں نے اس سے کہا کہ پہلے اس کی والدہ اس کے اسلام قبول کرنے پر راضی ہوں۔ اس کی والدہ نے کہا: "وہ جو چاہے کرنے کے لیے آزاد ہے،" تو اس نے اسلام قبول کیا، پھر اس کی والدہ نے بھی اسلام قبول کیا، پھر اسی دن کئی کوریائی خاندانوں نے ان کی پیروی کی، اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل تھا۔

سال 1985 میں، میں گھر سے مسجد جا رہا تھا، میری ملاقات 3 عرب افراد سے ہوئی، جب میں نے ان سے بات کی، تو ان میں سے ایک حاجی عبداللطیف الشریف تھے، جو مصر کے ایک کاروباری اور الشریف پلاسٹک فیکٹریز کے مالک تھے۔ میں نے ان سے جانجو شہر میں ایک مسجد بنانے میں مدد طلب کی، کیونکہ وہاں کوئی مسجد نہیں تھی، انہوں نے بہت خوشی سے اس کا خیرمقدم کیا۔ مصر واپس آتے ہی، انہوں نے مجھے فون کیا اور 267 ہزار ڈالر کی رقم منتقل کی، جو مسجد کی تعمیر کا خرچہ تھا،تو ہم نے وہاں مسجد بنائی اور اس کا نام "مسجد ابو بکر صدیق" رکھا۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ یہ معاملہ راز میں رکھا جائے، لیکن ان کی وفات کے بعد میں نے اس کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگ ان کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعا کریں، اللہ انہیں جزائے خیر دے۔

کیا آپ کو کوریا میں اسلام کی اشاعت کے کام میں کوئی مشکلات پیش آئیں؟

یقیناً، مشکلات اور رکاوٹیں ضرور آتی ہیں، لیکن اسلام نے ہمیں کلمہ توحید پھیلانے کی راہ میں صبر اور برداشت سکھایا ہے، یہی صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اور تابعینؒ کا طریقہ کار تھا۔ سرکاری اداروں کی طرف سے ہمیں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی، بلکہ ہمیں بڑی آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے، کوریا کے لوگوں سے ملنے اور انہیں اسلام کی دعوت دینے کی اجازت تھی۔

کیا کوئی عرب بھائی بھی آپ کے ساتھ کوریا میں اسلام کی دعوت میں شریک تھے؟

بدقسمتی سے نہیں تھے۔ ایک شخص لیبیا سے تھا، اور ایک سعودی عرب سے، لیکن وہ زیادہ دیر نہیں ٹھہرے اور اپنے ملک واپس چلے گئے۔ عرب ممالک اس معاملے میں بہت کوتاہی برت رہے ہیں۔

آپ کو کوریا کا مفتی عام کیسے منتخب کیا گیا؟

مجھے کوریا کے مسلمان ائمہ نے منتخب کیا، پھر کوریا کی مسلم یوین نے اس انتخاب کی تصدیق کی۔ یہ حقیقت میں میرا بنیادی مقصد نہیں ہے، بلکہ میرا حقیقی ہدف لوگوں کو اسلام کی طرف، اور ایک اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دینا ہے۔

کیا کوئی ادارہ آپ کی تنخواہ کا ذمہ دار ہے؟

جی ہاں، کویت کی وزارت اوقاف نے کئی سال تک میری تنخواہ کا ذمہ اٹھایا، پھر اس کے بعد عالمی رابطہ عالم اسلامی نے آج تک میری تنخواہ کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔

کیا آپ کوریا میں مسلم اتحاد کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

جی ہاں، یہ اتحاد 1976 میں قائم ہوا، اسی سال کوریا میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھی گئی، جب ریاست نے زمین عطیہ کی، اور پچاس کی دہائی میں کوریائی جنگ میں شریک ہونے والے کئی ترک افسران، اور کچھ کوریائی مسلمان جنہوں نے اسلام قبول کیا تھانے عطیات دیے۔ مسجد تعمیر ہوئی، پھر اس کے بعد اتحاد کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ یہ اتحاد کوریا کے مسلمانوں اور ان کی سرگرمیوں کا ذمہ دار ہے، اور وقتاً فوقتاً کوریا کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے سیمینارز کا اہتمام کرتا ہے۔

آج کوریا میں کتنی مسجدیں ہیں؟

کوریا میں مسجدوں اور مصلوں کی تعداد 150 سے زیادہ ہے، اور یہ کوریا کے کئی شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر مسجدیں دارالحکومت سیول  اور گوانگجو اور جانجو شہروں میں ہیں۔

کیا  کوریا کے باشندوں میں کوئی مشہور مسلم شخصیات ہیں؟

جی ہاں، بہت سی ہیں، ان میں ڈاکٹر ابو بکر کیم، جو کورین مسلم اتحاد کے صدر ہیں، اور ڈاکٹر حامد شن، جو قرآن کریم کے کوریائی مترجم ہیں، اور مصطفیٰ نا سو یانگ، جو ایک بڑے کاروباری اور کوریا میں کئی کمپنیوں اور فیکٹریوں کے مالک ہیں، اور یہاں مسلمانوں کی مدد میں ان کا بڑا ہاتھ ہے، اور ڈاکٹر سمیہ صوا میراجو جانبوک یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں جو کوریا کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے، اسی طرح ڈاکٹر محمد چون یانگ چول، جنہوں نے 70 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، اور اسلام کے نمایاں داعیوں میں شمار ہوتے ہیں، اسی طرح شیخ عبدالوہاب جو اور ان کی اہلیہ، یہ دونوں کوریا میں اسلام کے سب سے مشہور اور قدیم داعیوں میں سے ہیں، انہوں نے 1985 میں اسلام قبول کیا، اور اس دن سے وہ کوریا کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دے رہے ہیں۔

کیا آپ نے کوریا میں کوئی تصنیفی کام بھی کیے ہیں؟

جی ہاں، میری 30 سے زیادہ تصنیفات ہیں جو فقہ، حدیث، دعوت اور سیرت کے موضوعات پر ہیں، کچھ عربی میں ہیں اور کچھ انگریزی اور کوریائی میں، جن میں سے: "أحكام الصيام" (روزے کے احکام)، "أحكام الحج" (حج کے احکام)، "نظرة إلى ما قبل الإسلام" (اسلام سے پہلے کا ایک جائزہ)، "نظرة الإسلام لغير المسلمين" (اسلام کا غیر مسلموں کے بارے میں نقطہ نظر)، "الإسلام دين السلام" (اسلام دینِ امن ہے)، "لقاء مع الفطرة" (فطرت سے ملاقات)، "سلسلة الأنبياء والمرسلين" (انبیاء و مرسلین کی سیریز)، "سلسلة خطب الجمعة" (جمعہ کے خطبات کی سیریز)... اور دیگر شامل ہیں۔

کیا کوریا میں کوئی سماجی سرگرمیاں کی جاتی ہیں؟

نہیں، صرف کورین مسلمانوں کا اتحاد وقتاً فوقتاً کچھ سیمینارز اور ملاقاتیں منعقد کرتا ہے، لیکن مذہبی مواقع جیسے رمضان کے مہینے میں دعوت کے لیے ملاقاتیں اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔ ایک بار میں نے عربی زبان پر ایک سیمینار منعقد کیا، تو ایک بوڑھا کوریائی شخص اٹھا اور کلمہ شہادت پڑھا، پھر بیٹھے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کی پیروی کی، تو وہ ایک بابرکت مجلس تھی  الحمد للہ رب العالمین۔

کیا کوریا میں اسلام کو کوئی مشکلات درپیش ہیں؟

میں اس نکتے پر بات کرنا پسند نہیں کرتا، لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کوریا کے مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، اور اگر کوئی فقہی اختلاف ہوتا ہے، تو میں ان کے لیے ایک مرجع ہوں اور کسی کو جواب دینے میں دیر نہیں کرتا، لیکن ہمیں عرب ممالک سے ہمیشہ حمایت اور مدد کی ضرورت رہتی ہے۔

جنوبی کوریا ان ممالک میں سے ہے جن کا عرب ممالک کے ساتھ تجارتی تعلق ہے، کیا عرب تاجروں کی کوئی دعوتی سرگرمی یا مساجد یا کوریا میں مسلم اتحاد کے لیے کوئی مادی مدد ہے؟

بدقسمتی سے، نہیں، ہمیں ان کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا، ان میں سے کچھ نماز پڑھنے یا مساجد کا دورہ کرنے آتے ہیں، لیکن ان کی کوئی سرگرمی نہیں ہے۔

کیا آپ کا عرب یا اسلامی اداروں کے ساتھ کوئی رابطہ ہے؟

نہیں، بدقسمتی سے، کوئی رابطہ نہیں ہے۔

کیا کوریا میں کوئی عرب ائمہ بھی  ہیں؟

مصر اور ترکی سے کچھ ائمہ ہیں، اور رمضان میں سعودی عرب سے کچھ آتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان ائمہ پر کوئی خرچ کرنے والا نہیں ہے، بلکہ انہیں یہاں کے مسلمانوں سے مدد ملتی ہے۔

کیا آپ کوریا میں مستقل مقیم ہیں، یا آپ وقتاً فوقتاً شام یا عرب ممالک کا دورہ کرتے ہیں؟

نہیں، میں 1984 میں کوریا آنے کے بعد سے یہاں سے نہیں نکلا، 40 سال ہو گئے ہیں اور میں یہاں سے نہیں نکلا۔ حال ہی میں، مجھے رمضان کے بعد کویت کے دورے کی دعوت ملی ہے، اور اگر یہ دورہ ممکن ہوا تو میں کویت کی وزارت اوقاف سے کوریا میں اسلام کی دعوت کے بارے میں بات کروں گا۔

کوریا میں عربی زبان  کی کیا صورت حال ہے؟ اور کیا اس کا اسلام کی اشاعت سے کوئی تعلق ہے؟

یہاں سیول اور گوانگجو شہر میں یونیورسٹیاں ہیں جو عربی زبان پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے پہلے مجھے عربی زبان پڑھانے کے لیے بلایا تھا، لیکن جب انہوں نے میری دعوتی سرگرمیاں دیکھیں تو مجھے اجازت نہیں دی اور میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی۔ پھر ایک عیسائی یونیورسٹی نے مجھے عربی پڑھانے کے لیے بلایا، لیکن جب انہوں نے اسلام کی دعوت کے بارے میں میرا طریقہ دیکھا تو انہوں نے مجھے روک دیا اور میں نے اس کے بعد نہ ان کے ساتھ اور نہ ہی کسی اور یونیورسٹی میں کام کیا۔

کیا آپ امت مسلمہ کے اپنے بھائیوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

جی ہاں، میں انہیں دعوت دینا چاہوں گا کہ وہ کوریا میں اپنے بھائیوں کی مدد کریں، دعوت سے وابستہ افراد کو اسلام کی اشاعت کے لیے بھیجیں، کیونکہ کوریا اب بھی ایک کنواری زمین ہے، کوریا کے لوگ بہت دوستانہ ہیں، اگر انہیں کوئی دعوت دینے والا مل جائے تو وہ اسلام قبول کرتے ہیں ۔ میں یہاں 40 سال سے ہوں اور اس ملک میں توحید پھیلانے کا میرا عزم کبھی کم نہیں ہوا۔ میرے ہاتھوں پر سینکڑوں کوریائی مسلمان ہوئے ہیں، لیکن اگر  یہ نسل ختم ہو گئی اور یہاں کوئی اس مشن کو جاری رکھنے والے نہ رہے  تو  مجھے کوریا میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں خدشہ ہے۔

ترجمہ:ڈاکٹر  مبصرالرحمن قاسمی

(شیخ عبدالوہاب حلبی ندوی کی زندگی سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں)

https://mubassir2011rahman.blogspot.com/2025/07/blog-post_20.html

 

از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

شیخ عبدالوہاب حلبی ندویؒ

جنوبی کوریا کا آفتابِ علم و دعوت غروب ہو گیا

19 جولائی 2025ء بمطابق 24 محرم 1447ھ، عالمِ اسلام کے افق پر ایک ایسا غمناک دن طلوع ہوا جس نے ہر صاحبِ دل کو سوگوار کردیا۔ علم و عمل، اخلاص و ایثار اور دعوت و جہاد کے روشن مینار داعیِ اسلام ڈاکٹر شیخ عبدالوہاب بن الشیخ زاہد الحق الحلبی الندوی رحمہ اللہ 84 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔  شیخ عبدالوہاب حلبی  ندوی ؒگزشتہ چالیس برسوں سے جنوبی کوریا میں دعوت اسلام کا عظیم کام انجام دے رہے تھے، وہ علامہ سید ابوالحسن علی ندوی کے شاگرد خاص اور الموسوعۃ الفقہیہ پروجیکٹ کے رکن تھے۔

سن 1941ء میں شام کے تاریخی شہر حلب میں آنکھ کھولنے والے اس بچے کو شاید یہ علم نہ تھا کہ اللہ تعالٰی اس کے ہاتھ پر  ایک دن مشرق و مغرب کے لوگوں کو نورِ ہدایت سے سرفراز کرے گا۔ شیخ عبدالوہاب کو علم کا ذوق ہندوستان کی سرزمین تک لے آیا، جہاں 1968ء میں وہ علامہ ابوالحسن علی ندویؒ  کے شاگرد بنے ۔ شیخ عبدالوہابؒ خود اعتراف کرتے ہیں:

"شیخ ابو الحسن علی  ندوی نے مجھ پر خصوصی شفقت فرمائی، اور ان کے ہاتھ پر میں نے ابن کثیر کی عظیم تفسیر کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ پھر وہ مجھے دیگر جلیل القدر علماء کے سپرد کرتے گئے۔"

چنانچہ شیخ عبدالوہاب  نے حدیث کی مشہور کتاب "موطأ امام مالک" کو مولانا حبیب اللہ پالامپوریؒ کے حکم پر حفظ کیا، کتبِ ستہ کا درس مولانا محمد اسحاق ندویؒ سے حاصل کیا، اور فقہ میں مفتی محمد ظہور ندویؒ سے اجازت لی۔ ان کا علمی سفر ہندوستان کے علمی مراکز سے ہوتا ہوا دیوبند پہنچا، جہاں انہوں نے شیخ فخر الدین احمد دیوبندیؒ اور مولانا قاری طیبؒ سے علومِ فقہ و تفسیر حاصل کیے۔

شیخ حلبی ندوی نے ہندوستان کے بعد پاکستان کا سفر کیا، جہاں انہوں نے جامعہ کراچی سے ماسٹرز اور سندھ یونیورسٹی سے فقہِ مقارن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران ان کی معروف تصنیف فقہ الأئمۃ الأربعۃ منظرِ عام پر آئی۔ پھر ان کی علمی تشنگی انہیں مصر لے گئی، جہاں انھوں نے جامعہ الأزہر سے کلیۃ أصول الدین میں تعلیم حاصل کی۔

پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ شام کے منبر و محراب کے امین بنے، جامع البختی میں امام و خطیب، محکمہ افتاء میں مدرس، اور عفرین میں مدرسہ شرعیہ کے ناظم رہے۔ ان کے علم و عرفان کی خوشبو مکہ مکرمہ اور طائف کی درسگاہوں تک بھی پہنچی، جہاں جامعہ أم القریٰ اور کلیۃ الشریعہ میں وہ اسلامی فقہ کے پروفیسر رہے۔ اور پھر جامعہ فاروقیہ کراچی میں شعبۂ اعلیٰ تعلیم کے سربراہ مقرر ہوئے۔

شیخ عبدالوہاب حلبی ندوی کی حیات کا سب سے درخشاں باب جنوبی کوریا میں رقم ہوا۔ کویتی وزارتِ اوقاف میں ایک علمی نشست کے دوران جب کوریا میں اسلام کی پیاس کا ذکر آیا تو شیخ عبدالوہابؒ نے بلا تردد عرض کیا:

"میں تیار ہوں! اگر مجھے اجازت دی جائے تو میں وہاں جانے کے لیے مستعد ہوں۔"

یقین، اخلاص اور توکل کا پیکر یہ مردِ درویش جب کوریا پہنچا، تو کوریائی مسلمانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ کوریا میں شیخ عبدالوہاب ندوی نے حاجی محمد یون اور صبری سو جیسے ابتدائی مسلمانوں کے ساتھ مل کر دعوتِ دین کا آغاز کیا، اور پھر قمر الدین مون اور سلیمان لی کے ساتھ ایک دعوتی قافلہ تشکیل دیا، جو کوریا کے ہر گوشے میں پیغامِ حق لے کر پہنچا۔

1985ء میں ایک 12 سالہ لڑکے نے جب ان کے خطاب کے بعد کہا: "میں بھی آپ کی طرح مسلمان بننا چاہتا ہوں!" تو وہ لمحہ شیخ کے لیے گویا انعامِ الٰہی بن گیا۔ پھر نہ صرف وہ بچہ مسلمان ہوا بلکہ اس کی ماں بھی، اور ان کے بعد درجنوں  کوریائی شہریوں نے شیخ کے ہاتھ پر کلمہ پڑھا۔

اسی سال جنجو شہر میں ابو بکر صدیق مسجد کی بنیاد رکھی گئی، جس کے پیچھے حاجی عبداللطیف الشریف کی مالی معاونت اور شیخ عبدالوہاب کی خالص نیت کارفرما تھی۔ یہ مسجد جنوبی کوریا میں نہ صرف عبادت گاہ بنی، بلکہ شیخ عبدالوہاب حلبی ندوی ؒ نے اس مسجد کو کوریا میں دعوت اسلام کا ایک عظیم مرکز بنادیا۔

شیخ کے ہاتھوں 732 افراد نے جنجو مسجد میں اسلام قبول کیا، اور ملک بھر میں قائم شدہ 30 مساجد و مصلوں میں ہزاروں کوریائی باشندوں نے نورِ ایمان پایا۔ ان نومسلموں میں سب سے نمایاں نام عمر شن کا ہے، جو پہلے ایک پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری تھے۔ اسی طرح ناصو یانگ کا واقعہ بہت زیادہ پراثر ہے، جو شیخ کی حکمت بھری گفتگو سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوئے اور  اپنا نام مصطفیٰ رکھا۔

11 ستمبر کے بعد جب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا جانے لگا، تو شیخ  عبدالوہاب ؒنے قلم اٹھایا اور "اسلام دینِ سلام" اور "معاملۃ المسلم لغیر المسلم" جیسی کتابیں تحریر کیں اور ان کتابوں کو انہوں نے جنوبی کوریا کے چرچوں، پولیس اسٹیشنوں اور عام شہریوں میں تقسیم کیں۔ ان کا یہ عمل غلط فہمیوں کی فصیلیں گرانے میں مؤثر ثابت ہوا، حتیٰ کہ ان کے اس اقدام کے بعد شدت پسند عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد خود مسلمان ہوگئی۔

عربی، انگریزی اور کوریائی زبانوں میں 30 سے زائد کتابوں کی تصنیف کے ذریعے شیخ عبدالوہاب  حلبی ندوی ؒ نے علم و ہدایت کے سوتے جاری رکھے۔ وہ داعی بھی تھے، معلم بھی؛ محدث بھی تھے، مفکر بھی اور ایک درویش منش مسافر ت بھی تھے ، جنھوں نے مشرق بعید میں ایمان کا  چراغ جلایا  اور وہاں کے لوگوں کے دلوں کو نور ایمان سے منور کیا۔

 

شیخ ڈاکٹر عبدالوہاب بن الشیخ زاہد الحق الحلبی الندویؒ کی وفات محض ایک شخص کی موت نہیں، بلکہ ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ ان کی علمی اور دعوتی زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ جب اخلاص علم سے جڑ جائے، اور ایمان کی حرارت؛ عملِ  دعوت سے ہم آہنگ ہو جائے، تو اللہ تعالٰی  فردِ واحد کے ذریعے پوری امت کی تقدیر بدل دیتا ہے۔

اللہ رب العزت ان کے درجات کو بلند فرمائے، ان کی کوششوں کو قبول فرمائے، اور ان کے قائم کردہ چراغوں کو قیامت تک روشن رکھے۔إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔

ہفتہ، 5 جولائی، 2025

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ ( ہر شے کو فنا ہے)

 

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ      ( ہر شے کو فنا ہے)

(سورۃ الرحمٰن: 26)

از قلم- مبصرالرحمن

دنیا کی چمک دمک، شہرت، دولت، محبت، اور زندگی کی حسین رونقیں… یہ سب کچھ، انسان کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ہمیشہ اسی کے ساتھ رہے گا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جس مقام تک وہ پہنچا ہے، وہاں سے اب زوال ممکن نہیں۔ مگر موت، ایک ایسی سچائی ہے جو نہ کسی عمر کی محتاج ہے، نہ مقام کی، نہ وقت کی، نہ تیاری کی۔ وہ آتی ہے… نہ قبل از وقت اطلاع ملتی ہے، نہ الارام بجتی ہے، نہ اعلان کیا جاتا ہے، نہ کسی قسم کی نوٹس تھمائی جاتی ہے… اور اچانک  سب کچھ اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔

پرتگالی فٹبالر ڈیوغو جوٹا کی کہانی اِسی اٹل حقیقت کی ایک عبرتناک مثال ہے۔ 29 برس کا وہ نوجوان، جس نے کھیل کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جو دنیا کے مشہور کلب لیورپول کا فخر تھا، جس نے ابھی چند دن پہلے ہی اپنی محبت کو نکاح کا روپ دیا تھا، اور جس کی زندگی کے شب و روز خوشیوں سے بھرے ہوئے تھے ،  وہ اب نہیں رہا۔ایک لمحہ، ایک سڑک، ایک ٹائر کا پھٹنا… اور سب کچھ ختم۔

زندگی کی وہ رَوشن شام، جو محبت، خوابوں اور مستقبل کی امیدوں سے بھری ہوئی تھی، اچانک سیاہ رات میں ڈوب گئی۔ وہ گاڑی، جو شاید کل کسی جشن میں شرکت کے لیے تیار ہوئی تھی، آج ایک جلی ہوئی لاش کی طرح سڑک کے کنارے پڑی تھی۔یہ انجام صرف  یورپ کے مشہور فٹبال کھلاڑی جوٹا کا نہیں، بلکہ ہر اُس انسان کا ہے جو دنیا کو ہمیشہ کی حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔

جوتا کی زندگی خوابوں کا پیکر تھی ، ایک غریب کلب سے اٹھ کر یورپ کی مشہور ٹیموں تک پہنچنے کا سفر، وہ پاکوس ڈی فیررا کے چھوٹے سے کلب سے ایٹلیٹکو میڈرڈ، پھر پورٹو اور بالآخر لیورپول پہنچا۔ شہرت، دولت، محبت، اولاد  سب کچھ نصیب ہوا۔ مگر موت نے یہ سب ایک لمحے میں چھین لیا۔

یہ واقعہ ہمیں چیخ چیخ کر یاد دلاتا ہے کہ:

"فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ"

(پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟)

ہم گاڑیوں میں بیٹھے دوڑتے ہیں، خواب بُنتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں، مگر کبھی اُس وقت کے بارے میں نہیں سوچتے جو یقینی ہے  یعنی موت ۔ وہ موت جو نہ عمر کا لحاظ کرتی ہے، نہ شہرت کا، نہ محبتوں کا۔ معروف فٹبال ستارے ڈیوغو جوٹا کی جلی ہوئی گاڑی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان کتنی ہی بلندیاں حاصل کر لے، انجام خاک ہونا ہے۔زندگی کا فریب یہی ہے:ہم سمجھتے ہیں کہ وقت ہمارے پاس ہے، مگر اصل میں ہم خود وقت کے پاس گروی رکھے گئے ہیں ، اور جب وہ چاہے، ہمیں لے جاتا ہے۔

لہٰذا، جوٹا کا  کار حادثہ نہ صرف ایک سانحہ ہے بلکہ ہوش کا ایک ناقوس ہے:

  • آج جو ہم میں ہیں، کل شاید نہ ہوں؛
  • آج جو ہنسی ہے، کل شاید آنسو بن جائے؛
  • آج جو ہمارے ساتھ ہیں، کل تصویر میں قید ہو جائیں گے۔

یہ لمحے، یہ رشتے، یہ ساز و سامان، سب فانی ہیں۔

(کُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ)        یہ ایک ایسی سطر ہے جو دنیا کے ہر تاج کو جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

آئیے، ہم اس واقعے سے سبق لیں۔

زندگی کو فضول دوڑ میں نہ گنوائیں، اپنوں سے محبت کریں، وقت کی قدر کریں، اور سب سے بڑھ کراپنے خالق کو یاد رکھیں۔

کیونکہ آخرکار

وَیَبۡقَىٰ وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو ٱلۡجَلَـٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ

(اور صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی ره جائے گی۔)

 

فیچر پوسٹ

Watan se Mohabbat Aur Islam

✍ ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی  وطن سے محبت ۔۔ دین اسلام کی رہنمائی ((ما أطيبَك من بلدٍ! وما أحبَّك إليَّ! ولولا أن قومي أخرجوني منك،...