جمعرات، 28 اگست، 2025

 *کیا آپ قرآن مجید میں مذکور لفظ 'رحمت' اور 'رحمۃ' میں مذکور حرف [ت] اور [ة] کے دقیق فرق کو جانتے ہیں؟* 


قرآنِ کریم میں کہیں لفظ "رحمت" (جس کی تاء کھلی ہوئی ہے) اور کہیں "رحمة" (جس کی تاء گول ہے) آیا ہے۔ بظاہر یہ دونوں ایک ہی لفظ کی مختلف صورتیں معلوم ہوتی ہیں، مگر قرآنی فصاحت کے پیشِ نظر ہر ایک کے استعمال میں خاص نکتہ اور دقیق مفہوم پنہاں ہے۔


1- رحمت (کھلی تاء):  

جب لفظ "رحمت" کھلی ہوئی تاء کے ساتھ آتا ہے، تو اس سے مراد وہ رحمت ہوتی ہے جو کسی طویل شدت یا گرفت کے بعد کشادہ اور کھلی ہو یا عطا کی گئی ہو،  اس میں ہمیشہ ایک خاص واقعہ یا حال کا ذکر ہوتا ہے، جہاں پہلے مایوسی یا تنگی تھی اور پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے خاص کرم اور کشادگی ہوئی۔


قرآن مجید میں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ کو بڑھاپے میں فرزند کی بشارت دی گئی، تو فرشتوں نے فرمایا:

   ﴿قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ *رَحْمَتُ* اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ﴾ (ہود: 73)

    یہاں لفظ 'رحمة' نہیں بلکہ 'رَحْمَتُ' آیا ہے۔ یہ اسی طرف اشارہ ہے کہ ایک ایسی نعمت ملی جو سالوں کی بے اولادی اور بڑھاپے کی مایوسی کے بعد اچانک نازل ہوئی، گویا کہ نعمت کا دروازہ جو بند تھا، کھل گیا۔

 اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے جب بڑھاپے میں اولاد کے لیے دعا کی، تو جواب میں فرمایا گیا:

   ﴿ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا﴾ (مریم: 2)

    یہاں بھی لفظ 'رَحْمَتِ' کا استعمال ہوا، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ رحمت ایک طویل انتظار اور محرومی کے بعد عطا ہوئی، بالکل اسی طرح جیسے ایک خشک اور مردہ باغ میں اچانک بہار آجائے۔

    اسی مفہوم کی ایک اور مثال بارش کا نزول ہے۔ جب زمین سوکھ جاتی ہے، مردہ ہو جاتی ہے اور زندگی کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا، تب اچانک رحمتِ باری کا نزول ہوتا ہے اور زمین پھر سے زندہ ہو جاتی ہے: ارشاد باری ہے: 

   ﴿فَانظُرْ إِلَىٰ آثَارِ *رَحْمَتِ* اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ﴾ (الروم: 50)

    یہاں بھی 'رَحْمَتِ' کا استعمال ہوا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رحمت اس وقت نازل ہوئی جب اس کی شدید ضرورت تھی، اور اس نے جمود اور موت کو زندگی میں بدل دیا۔


2. رحمة (گول تاء): وہ رحمت جس کی امید ہے: 

اس کے برعکس، جب قرآن کریم میں"رحمة" (گول تاء کے ساتھ) کا استعمال ہوتا ہے، تو اس سے مراد وہ رحمت ہوتی ہے جو مستقبل میں متوقع ہو یا جس کی خواہش اور آرزو کی جا رہی ہو۔

    قرآن مجید میں راتوں کو سجدہ کرنے والے اور آخرت سے ڈرنے والے پرہیزگار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

   ﴿وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ﴾ (الزمر: 9)

    یہاں رَحْمَةَ'(گول تاء) استعمال ہوا، اس لیے کہ وہ شخص دنیا میں اس رحمت کا طلبگار ہے، جو اسے آخرت میں عطا ہوگی۔ یہ وہ رحمت ہے جو ابھی اسے ملی نہیں ہے، بلکہ اس کی امید ہے۔

    اسی طرح ایک اور جگہ پر فرمایا:

   ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ ﴾ (النساء: 175)

    یہاں بھی 'رحمة' استعمال ہوا ہے۔ یہ ان مومنوں کے لیے وعدہ ہے کہ انہیں مستقبل میں اللہ کی رحمت میں داخل کیا جائے گا۔

خلاصہ یہ کہ:

"رحمت" (کھلی تاء) اس رحمت کے لیے ہے جو تنگی کے بعد کشادگی کی صورت میں عطا ہوئی ہو، جب کہ "رحمۃ" (گول تاء) اس رحمت کے لیے ہے جو مستقبل میں ملنے والی ہو اور جس کی امید یا وعدہ کیا گیا ہو۔ یہ قرآن کے اعجازِ بلاغت کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے، جہاں ایک حرف کی تبدیلی سے پورا مفہوم تبدیل ہو جاتا ہے۔

واللہ اعلم بالصوا

از- ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی 

ہفتہ، 23 اگست، 2025

از قلم : ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

"بچوں میں نماز کی ترغیب" مہم

ملکی سطح پر منبر و محراب فاؤنڈیشن کی ایک خوبصورت پہل

===============


دنیا کے ہر ماں باپ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کا بچہ نیک، سچا، اور دین دار ہو۔ مگر یہ صرف خواہش کرنے سے نہیں ہوتا۔ جیسے ایک کسان اپنی فصل کو پانی دیتا ہے، گوڈی کرتا ہے، اور کیڑوں سے بچاتا ہے، ویسے ہی بچوں کی دینی تربیت کے لیے مسلسل محنت اور رہنمائی درکار ہوتی ہے۔

اگر بچپن ہی سے بچوں کو دین کی سمت نہ دیا جائے، تو بڑے ہو کر وہ گمراہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ نبی اکرم نے فرمایا:

"ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔"

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تربیت کا انحصار والدین اور ماحول پر ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے" (التحریم: 6(

جبکہ رسول اللہ نے فرمایا:

"اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو، اور دس سال کی عمر میں اگر نہ پڑھیں تو انہیں تنبیہ کرو۔"

یہ واضح پیغام ہے کہ بچوں کو دین کی راہ پر گامزن کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، اور وہ اس ذمہ داری کے بارے میں قیامت کے دن جوابدہ ہوں گے۔

نماز کی طرف بچوں کو راغب کرنے کا مطلب صرف حکم دینا یا سزا دینا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم صرف ڈانٹ ڈپٹ کا طریقہ اپنائیں گے، تو بچہ نماز کو بوجھ سمجھے گا۔ اس کے برعکس اگر ہم ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اور شکر گزاری کا جذبہ پیدا کریں، تو وہ خود نماز کی طرف مائل ہوں گے۔

جب ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، اس کی محبت اور رحمت کے بارے میں بچوں سے بات کریں گے، تو ان کے دل نرم ہوں گے، اور وہ خود سے نمازوں کا اہتمام کرنے کی خواہش کریں گے۔

بچوں کی تربیت کے تین مراحل:

1-تین سے پانچ سال کی عمر: اس عمر میں بچے نقل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ جب وہ والدین کو نماز پڑھتے دیکھیں تو انہیں روکنا نہیں چاہیے۔ انہیں ساتھ کھڑا ہونے دیں، چاہے وہ صرف نقل ہی کریں۔

اس وقت ان کو چھوٹی سورتیں جیسے سورۃ الفاتحہ، سورۃ الاخلاص اور معوذتین یاد کروانا مفید ہوتا ہے۔

 

2- پانچ سے سات سال کی عمر: یہ عمر سیکھنے اور شعور پیدا ہونے کی ہے۔ بچوں کو اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں، اس کی قدرت اور رحمت کی باتیں سنائی جائیں۔ بچوں کے سامنے والدین کی نماز کا اہتمام بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اس عمر میں تعریف اور تحفے بہت کام آتے ہیں۔ مثلاً بیٹی کو خوبصورت دوپٹہ یا جائے نماز، اور بیٹے کو مسجد لے جانا، ان کے دل میں دینی جذبات کو جگا سکتا ہے۔

3- سات سے دس سال کی عمر: یہ عمر حساس ہوتی ہے، بچے ضد یا لاپرواہی دکھا سکتے ہیں۔ اس عمر میں نرم رویہ، مثبت یاد دہانی، اور ذاتی مثال سب سے مؤثر طریقے ہیں۔

بچوں کو اس طرح یاددہانی کرائیں:

"بیٹا! عصر کا وقت ہو گیا ہے، آؤ ہم سب مل کر نماز پڑھتے ہیں"

ان کی ہر نماز پر حوصلہ افزائی کریں، تعریف کریں، اور انہیں اہمیت کا احساس دلائیں۔

 حوصلہ افزائی:

نماز کی پابندی سکھانے میں سب سے مؤثر طریقہ ہے بچوں کی حوصلہ افزائی۔ ان کے نماز پڑھنے پر خوشی کا اظہار کریں۔

نماز ڈائری:

ایک مؤثر طریقہ یہ بھی ہے کہ بچوں کے لیے "نماز ڈائری" بنائیں، جس میں وہ ہر نماز کے بعد نشان لگائیں۔ یہ عمل نہ صرف ان میں تسلسل پیدا کرے گا بلکہ ایک مثبت جذبہ بھی بیدار کرے گا۔

منبر و محراب فاؤنڈیشن کی ملک گیر سطح پر یہ پہل کہ وہ بچوں کے لیے ایسی ترغیبی ڈائریاں اور مواد تیار کر رہی ہے، لائقِ تحسین ہے۔ یہ محض ایک مہم نہیں بلکہ ایک نسل کی دینی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔

آئیے، ہم سب مل کر اس نیکی کے کام میں شامل ہوں، اور اپنے بچوں کو نماز سے محبت کرنا سکھائیں۔ کیونکہ یہی نماز کل ان کا، اور ہمارا، سہارا بنے گی۔ 

منگل، 19 اگست، 2025

 

شیخ علی عبداللطیف الجسارؒ: کویت میں ابلاغی دعوت کے بانی

از قلم : ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی



آج ہم کویت کے اُن جلیل القدر عالمِ دین کو یاد کررہے ہیں جن کا نام تاریخِ کویت کے سنہرے اوراق میں ثبت ہے۔ یہ ہیں شیخ علی عبداللطیف الجسارؒ۔ سال 2006ء میں آج ہی کی تاریخ کو وہ 84 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کی زندگی صرف ایک فرد کی زندگی نہ تھی، بلکہ کویت کی علمی، دینی اور ابلاغی تاریخ کا ایک پورا باب تھی۔ وہ ان اولین شخصیات میں تھے جنہوں نے کویت ٹیلی وژن کے ذریعے دعوت و ہدایت کا پیغام عام کیا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کویت کے ذرائع ابلاغ کا ذکر ان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔

1922ء میں آپ کی ولادت مرقاب  کے اس خانوادے میں ہوئی جو دیانت، شرافت اور علمِ دین کا امین تھا۔ آپ کا تعلق  قبيلة عتيبة کی معروف شاخ (الأساعدة) کے خاندان (الروقہ) سے تھا۔ یہ وہ خانوادہ ہے جس کے نسبی شجرے کی شاخیں کویت کے نامور اور معزز خاندانوں سے جا ملتی ہیں۔

شیخ الجسار نے ابتدائی تعلیم "الکُتّاب" سے حاصل کی، پھر المبارکیہ اورالاحمدیہ اسکولوں میں تین برس تک باقاعدہ تعلیم جاری رہی۔ مگر حالات نے آگے کا راستہ روک دیا اور یوں شیخ الجسار عملی میدان میں اتر آئے۔ جوانی میں ہی سردیوں کے کھردرے لباس اور گرمیوں کی جھلسا دینے والی دھوپ کو سہہ کر انہوں نے اپنی ذات کو صبر و محنت سے تراشا۔ انہی اوصاف نے انہیں قوم کے اعتبار اور اعتماد کے لائق بنایا۔ انہیں النقرة علاقے کا مختار مقرر کیا گیا اور بعد ازاں کئی اہم قومی اداروں میں بھی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

لیکن شیخ الجسار کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ذرائع ابلاغ میں تھا۔ اخبارات ہوں، ریڈیو یا ٹیلی وژن ہر پلیٹ فارم پر ان کی آواز گونجی۔ ان کے وعظ و نصیحت صرف جملے نہ تھے، بلکہ دلوں کو جھنجھوڑ دینے والے پیغام تھے، جو سامع کے دل میں اترتے اور ذہن کو منور کرتے۔

اہلِ مرقاب  گواہ ہیں کہ اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ ہر وقت کتاب ساتھ رکھتے۔ نماز کے بعد  (مسجد المطران)، جو آج  مسجد العتيقي  کے نام سے معروف ہے، میں اہلِ محلّہ کو خطاب کرتے۔ اگر کبھی خطیب غیر حاضر ہوتا تو یہ نوجوان بے تیاری کے باوجود منبر پر کھڑے ہو جاتے اور خطابت کے ایسے جوہر دکھاتے کہ سامعین عش عش کر اٹھتے۔ گویا علم و حکمت کا دریا ان کے دل میں موجزن تھا۔

شعر وادب سے بھی ان کو خاص شغف تھا۔ ان کی گفتگو میں اشعار کا ہونا لازم تھا۔ چاہے وہ فصیح و بلیغ عربی کے اشعار ہوں یا کویت کے عظیم شاعر  (زيد الحرب) کا پرزور مقامی کلام، سب ان کی زبان پر رواں رہتا۔

الغرض، شیخ علی عبداللطیف الجسارؒ کویت کی دینی، سماجی اور ابلاغی تاریخ کے وہ درخشاں چراغ ہیں جن کی جدوجہد، اخلاص اور دعوتی خدمات آنے والی نسلوں کے لیے مینارِ ہدایت ہیں۔

 

فیچر پوسٹ

Watan se Mohabbat Aur Islam

✍ ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی  وطن سے محبت ۔۔ دین اسلام کی رہنمائی ((ما أطيبَك من بلدٍ! وما أحبَّك إليَّ! ولولا أن قومي أخرجوني منك،...