جمعہ، 12 جون، 2015

Akabireen k Ramzan Aur Tilawat e Quran

0 تبصرے

رمضان المبارک میں قیام لیل اور معاصر علماء کرام کی روشن مثالیں

ترجمہ:  مبصرالرحمن قاسمی

 الشيخ ابراهيم بن صالح التركي ( ت ١٤٢٦(
بارہ برس کی عمر میں حفظ قرآن کی تکمیل، آپ ماہر ومتقن قاری تھے، کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، آپ ہر دو دن میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے، جبکہ رمضان المبارک میں بیس مرتبہ قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ شیخ ابراہیم خود بیان کرتے ہیں کہ وہ نوجوانی کی عمر میں ایک عرصہ قرآن کریم کی مسلسل تلاوت نہ کرسکے، جس کی وجہ سے قرآن کی بعض سورتوں کا حفظ کمزور ہوگیا ، قرآن کریم کے حفظ میں اس کمزوری کی وجہ سے انھوں نے ایک سال تک اپنی دکان کو بند کردیا اور قرآن کریم کا دور کیا حتی کہ ان کا حفظ پختہ ہوگیا۔

 الشيخ أحمد ياسين ( ت ١٤٢٥(
ڈاکٹر احمد الصویان کہتے ہیں کہ ان سے شیخ احمد یاسین کے فرزند نے بیان کیا کہ شیخ احمد کا یہ معمول تھا کہ ہر چار رات میں ایک قرآن کریم ختم کرتے تھے، سخت ترین حالات میں بھی وہ اپنے معمول کو ترک نہیں کرتے تھے، شیخ احمد کے فرزند کے بقول وہ خود اپنے والد کے لیے قران کریم کے صفحات کو پلٹتے تھے اور شیخ احمد یاسین تلاوت کیا کرتے تھے، کیونکہ شیخ احمد یاسین معذور تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات انھوں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ اپنی زبان سے قرآن کریم کے صفحات کو الٹ رہے ہیں۔

 الشيخ أحمد بن عبد الرحمن بن قاسم (ت ١٤٢٩(
شیخ احمد بن عبدالرحمن بن قاسم کا یہ معمول تھا کہ ہر سات دن میں ایک قرآن ختم کرتے تھے، اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں آپ نے ہر تین دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا معمول بنادیا تھا، آپ نے اٹھارہ سال کی عمر سے ہی روزانہ دو گھنٹے قیام لیل شروع کردیا تھا، آپ کا یہ سلسلہ عمر کے اخیر مہینوں تک جاری رہا۔

 أحمد بن عبد الله الخضيري ( ت ١٤٠٥(
آپ کے فرزند شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالعزیز الخضیری کے مطابق شیخ احمد بن عبداللہ الخضیری ہر روز ایک قرآن ختم کرتے تھے جبکہ ماہ رمضان میں 60 مرتبہ قرآن کریم ختم کرتے تھے، جب رمضان کا چاند نظر آتا تو آپ حرم میں داخل ہوجاتے اور شوال کے چھ روزوں کے بعد ہی حرم سے نکلتے۔

 سعد بن عبد الله العبيد ( ت ١٤٢٨(
شیخ سعد بن عبداللہ العبید کے فرزند شیخ محمد کہتے ہیں: میں نے جب سے شادی کی ہے اس وقت سے اپنے والد کو قیام اللیل کا پابند پایا، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی انھیں نماز فجر کے لیے بیدار نہیں کیا، جب آپ کو مرض لاحق ہوا تو آپ نے علاج کے لیے امریکا جانے کا ارادہ کیا اور امریکا میں صرف پندرہ دن قیام کیا، جب وہ امریکا سے لوٹے تو مجھے بڑی خوشی سے بیان کیا کرتے تھے کہ مجھے امریکا میں جو سب سے پسندیدہ چیز ملی وہ طویل راتیں تھیں،  جہاں آپ اپنے معمول کے مطابق قیام لیل کے وقت میں دو گھنٹوں کا اضافہ کیا کرتے تھے اور چار پاروں کے بجائے چھ پارے قیام لیل میں پڑھا کرتے تھے، اس طرح آپ نے دوہفتوں کے اندر تین دفعہ قرآن کریم ختم کیا تھا۔

 الشيخ عبد الله بن عبد الرحمن بن غديان (ت١٤٣١(
ڈاکٹر سعد بن مطر العتیبی کے بقول میں شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن کو قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت اور حد درجہ قرآن کریم میں تفکر وتدبر کرتے ہوئے پایا، مجھ سے ان کے فرزند نے بیان کیا کہ وہ ایک دفعہ شیخ کے ساتھ بذریعہ کار طائف سفر پر نکلے، ابھی گھر سے ہم نکلے بھی نہیں تھے کہ والد محترم نے مجھے قرآن کریم پڑھنے کے لیے کہا لہذا میں نے سورہ فاتحہ سے شروع کیا ، جب ہم طائف پہنچے تو والد محترم کا قرآن ختم ہوچکا تھا ۔ آپ کا معمول تھا کہ روزانہ سات سے آٹھ گھنٹے تلاوت صرف تلاوت کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر سعد بن مطر العتیبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے ان کے فرزند محمد نے بیان کیا کہ وہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے زمانے میں جمعہ کے دن نماز فجر سے ہی جمعہ کے لیے مسجد پہنچ جایا کرتے تھے اور نماز فجر کے بعد سے ہی صف اول کو پانے کے لیے کوشش کرتے تھے، اس اثناء اکثر لوگ جمعہ کی اذان ثانی سے پہلے ایک قرآن ختم کردیا کرتے تھے۔

• محمد بن عبد الرحمن بن قاسم ( ت ١٤٢١(
شیخ عبدالملک جو شیخ محمد عبدالرحمن بن قاسم کے فرزند ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد رحمہ اللہ قرآن کریم اور اہل قرآن سے حد درجہ محبت کیا کرتے تھے، آپ نے بچپن میں ہی حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرلی تھی، رمضان میں آپ کا معمول ہر تین دن میں ایک قرآن ختم کرنے کا تھا، جبکہ عمر کے آخری زمانے میں آپ ہر روز ایک قرآن ختم کرتے تھے، والدمحترم کے سلسلے میں مشہور ہے کہ آپ کم عمری سے ہی قیام لیل کے پابند تھے، آپ کا قیام لیل روزانہ تین گھنٹے ہوتا تھا، برادر عبدالمحسن نے والد محترم سے ایک دفعہ سوال کیا کہ آیا شیخ محمد بن ابراہیم نے آپ کو اس طرح قیام لیل کی ہدایت کی ہے، کہنے لگے نہیں، بلکہ میں نے 19 سال کی عمر میں قیام لیل کے فضائل سے متعلق ایک کتاب پڑھی تھی، لہذا اس وقت سے میں نے قیام لیل ترک نہیں کی۔ والدہ محترمہ کے مطابق والد محترم نے اپنی شب زفاف میں بھی اپنے اس معمول کو ترک نہیں کیا تھا۔

.• محمد المختار بن محمد الأمين الشنقيطي ( ت١٤٠٥)
محمد شنقیطی کے فرزند شیخ محمد کے بقول میں کالج کی تعلیم کے دوسرے سال میں تھے، ان دنوں میں نے والد محترم سے ایک رات میں قرآن کریم ختم کرنے سے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ بہت آسان ہے کہ ایک رات میں قرآن ختم کیا جائے البتہ خلاف سنت ہے۔ پھر آپ کہنے لگے : بیٹا! اللہ کی قسم ! اللہ کا شکر ہے ، کئی سال ایسے گذرچکے ہیں کہ میں عشاء کی نماز کے بعد قرآن کریم شروع کرتا ہوں اور سحر آنے آنے تک قرآن کریم کے آخری حصے تک پہنچ جاتا ہوں۔
)استفادہ  : شذا الياسمين من أخبار المعاصرين (

http://saaid.net/mktarat/ramadan/675.htm




0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔