منگل، 2 جون، 2015

zuban ki tabahkariyan

0 تبصرے
زبان کی تباہ کاریاں
  ترجمہ
 مبصرالرحمن قاسمی

زبان ایک عظیم نعمت ہے اور زبان سے ایمان کا اقرار کرنا ایمان کی بڑی علامت ہے۔
ہر بندہ مسلم کو اپنی زبان کے سلسلے میں توجہ دینا بے حدضروری ہے، اورزبان کو شریعت کی لگام ڈالنا چاہیے، چونکہ زبان انسان کے اعضاء میں سے سب سے زیادہ نافرمان، سب سے زیادہ گناہ گار اور سب سے زیادہ باعث فساد ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو ان کی زبانوں کی حرکتوں کے سبب جہنم میں ڈالا جائے گا۔
عربی کا مشہور شاعر جریرکا کہنا ہے:
وجرح السّيف تُدْملُهُ فيبرا***ويبقى الدّهر ما جرح اللسان!
(ترجمہ: تلوار کا زخم مٹ جاتا ہے، لیکن زبان کا زخم زمانہ بھر باقی رہتا ہے۔)
سفیان بن عبداللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جسے میں مضبوطی سے پکڑلوں، فرمایا: ربی اللہ کہو، اور اس پر ثابت قدم رہو، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کونسی چیز ہےجس کا میرے سلسلے میں آپ کو سب سے زیادہ خوف ہے؟، توآپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کوہاتھ لگاتے ہوئے ارشاد فرمایایہ۔
جس طرح بندے کو اپنے زبان کی حفاظت کرنا ضروری ہے اسی طرح گناہوں کی باتوں سے اپنے کانوں کی حفاظت کی بھی اس پر ذمہ داری ہے۔چونکہ بُری باتوں کو سننا بھی کہنے والے کی طرح ہے لہٰذا اس سلسلے میں متنبہ رہنا ضروری ہے۔
بہت سے امور میں زبان کی حفاظت کے سلسلے میں لاپرواہی اور غفلت نفس انسانی اور خواہشات کو متاثر کرتی ہے،زبان جہاں ایک نعمتِ عظمی ہے وہیں یہ ایک آفت اور آزمائش بھی ہے، زبان کی بے شمار آفتیں ہیں جن میں سے چند ہم نے ذیل میں پیش کی ہیں:
اولا: اللہ کے علاوہ کی قسم کھانا
ثانیا: جھوٹی گواہی دینا
ثالثا: لعن کرنا
رابعا: جھوٹ بولنا
خامسا:غیبت کرنا
سادسا: چغلی کرنا
سابعا: مذموم تعریف کرنا
ان کے علاوہ ہر وہ برُی بات جو زبان پر آتی ہے ، زبان کی آفتوں میں شامل ہیں۔
حضرت عطیہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم ﷺ سے نجات کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اپنی زبان کو روکے رکھو، اللہ نے جو مقدر کیا ہے اس پر راضی ہوجاؤ اور اپنی خطا پر رویا کرو۔
مومنین کو زبان کی تباہ کاریوں سے بچنے میں کوتاہی اور غفلت سے کام نہیں لینا چاہیے، جو افراد غافل ہیں ان کے حق میں قرآن کریم مومنین کو یاد دہانی کرانے کا حکم دیتا ہے:  وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَالذّاريات: 55]. اور نصیحت کرتے رہو کہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔
اور آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ زبان دو عظیم آفتوں کا سرچشمہ ہے، اگر انسان ایک سے بچتا ہے تو دوسری کا شکار ہوجاتا ہے، سوائے اُس شخص کے جسے اللہ بچائے، جس میں سے ایک زبان کو حرکت دینا ہے اور دوسری خاموشی ہے، کیونکہ حق کے سلسلے میں خاموشی اختیار کرنے والا گونگا شیطان اور باطل کا طرفدار ہے۔
ایک حکیم کا قول ہے:
چھ عادتوں سے جاہل کو پہچانا جاتا ہے:
۱۔ بے وجہ غصہ ہونے سے
۲۔ راز کا افشاء کرنے سے
۳۔لوگوں سے اختلاف رکھنے سے
۴۔بے موقع ہدیہ دینے سے
۵۔دشمن اور دوست کو نہ پہچاننے سے
۶۔بے فائدہ بات کرنے سے
علماء نے خاموشی کی سات طرح سے تعریف کی ہیں:
۱۔ خاموشی بغیر تھکن کی ایک عبادت ہے۔
۲۔ خاموشی بغیر زیور کی زینت ہے۔
۳۔ خاموشی سلطان وحاکم کے درجے پر نہ ہونے کے باوجود رعب کا باعث ہے۔
۴۔ اظہار معذرت سے بے نیازی کا ذریعہ ہے۔
۵۔ خاموشی بغیردیوار کا ایک قلعہ ہے۔
۶۔ کراما کاتبین کے لئے باعث راحت ہے۔
۷۔ متکلم یعنی بات کرنے والے کے  عیوب کا ستر ہے۔
لقمان حکیم کا قول ہے:
"خاموشی ایک حکمت ہے لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں"۔
زبان کے استعمال کے لیے اطاعت باری تعالیٰ اور اُس کا ذکر وشکر ایک وسیع میدان ہے، نیز انسان کے بس میں ہے کہ وہ اپنی زبان کو معاصی اور نافرمانیوں میں استعمال کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں استعمال کرے اور زبان کے ذریعے اپنے درجات کو بلند کرنے کی کوشش کرے، قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔
زبان کی پہلی آفت اور پہلا مرض زبان سے اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کرناہے جو اُسے ناپسند ہو۔
غیبت کیا ہے؟
یہ ایک خطرناک آفت اور عظیم آزمائش ہے، نبی کریم ﷺ نے اپنے اس قول سے غیبت کا مطلب بیان فرمایا:
تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کے بارے میں وہ بات کرنا جو اسے ناپسند ہو، دریافت کیا گیا: آپ کیا فرماتے ہیں اُس قول کے بارے میں جو میرے بھائی میں موجود ہو، (اور اسے بیان کیا  جائے) آپ ﷺ نے فرمایا: جو بات تم کہہ رہے ہو وہ اس میں موجود ہو تو تم نے غیبت کی، اور اگر اُس میں وہ بات نہ ہو جو تم کہہ رہے ہو تو پھر تم نے اُس پر بہتان لگایا۔
غیبت کی مثالیں:
۱۔ انسان کے جسم کی بناوٹ  کے سلسلے میں بات کرنا، جیسے کسی بھائی کو نابینا، اندھا ، کالا اور ٹھیگنا کہنا۔
۲۔ انسان کے حسب ونسب کے سلسلے میں بات کرنا جیسے غلام ،یا نچلی ذات  سے کسی کو یاد کرنا۔
۳۔ کسی کے پیشے کو حقیر جانتے ہوئے یاد کرنا جیسے فراش، حجام اور قصاب کہنا۔
۴۔ شرعی امور سے متعلق بات کرنا، جیسے کسی کو چور، جھوٹا اور شرابی وغیرہ کہنا۔
۵۔انسان کے ظاہری وضع قطع سے متعلق حقارت آمیر بات کہنا جیسے کسی کو لمبی آستین والا ، لمبے کپڑوں والا یا اس طرح کے الفاظ سے یاد کرنا۔
۶۔کسی کو کم ادب، باتونی، غافل، سست وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا۔
مذکورہ تمام باتیں غیبت کے باب سے تعلق رکھتی ہیں، اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے والا اپنے مرداربھائی کا گوشت کھانے والے کے مترادف  ہے۔
غیبت کی قسمیں:
غیبت زبان سے کسی ناپسندیدہ بات کے ادا کرنے سے ہی نہیں ہوتی بلکہ ہروہ حرکت، اشارہ یا نقل اور ہر وہ عمل جس سے کسی کی غائبانہ میں تقصیر  اور تحقیر مقصود ہو حرام عمل اور غیبت میں شامل ہے۔
غیبت میں شرکت:
غیبت کی باتیں سننا، غیبت کی مجالس میں موجود رہنا، غیبت کرنے والے کو اس کے عمل سے منع نہ کرنا یہ سب غیبت میں شرکت کرنے کے مترادف ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: «من ردّ عن عرض أخيه ردّ الله عن وجهه النّار يوم القيامة [رواه التّرمذي 1931 وصححه الألباني]
(جس نے اپنے بھائی کی (عدم موجودگی میں) اُس کی جانب سے دفاع کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے سے آگ یعنی جہنم کو ہٹائیں گے۔)
إنّ الصّديق الصّدق من صدقك***ومن يضرُّ نفسه لينفعك
ومن إذا ريبُ الزّمان ضعضعك***فرّق فيك شملهُ ليجمعك
(ترجمہ: دوست وہ ہے جو آپ کی تصدیق کرے، جو آپ کے فائدے کے لئے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالے، جب آپ کو آزمائش زمانہ کمزور وبے بس کردے تو دوست آپ کی تقویت کے لئے اپنی جماعت کو جدا کردے۔)
غیبت کے اسباب:
۱۔ کراہیت اور نفرت
۲۔حسد جو صاحب غیبت کے دل کو کھاجاتا ہے۔
۳۔ فتنہ وفساد کا ارادہ رکھنا۔
۴۔ قابل احترام شخصیات کی تنقیص کرنا۔
۵۔ ہم نشینوں کی موافقت
غیبت کی جائز قسمیں:
۱۔ ظلم: مظلوم قاضی کے سامنے ظالم کے ظلم اور خائن کی خیانت کے بارے میں شکایت کرسکتا ہے۔
۲۔ کسی کی برائی کا اُس شخص کے سامنے ذکر کرنا جو اس کے اصلاح کی طاقت رکھتا ہو، اس ارادے سے کہ نافرمان راہ راست پر آجائے۔
۳۔ مفتی کے سامنے فتوی معلوم کرنے کے لئے صورتحال بیان کرنا، مثال کے طور پر بیوی کا اپنے شوہر سے متعلق بات کرنا۔
۴۔ مسلمان کو کسی کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے۔
غیبت کا شرعی حکم اور اس کے دلائل:
کتاب وسنت اور اجماع امت سے غیبت کا حرام اور گناہ کبیرہ ہونا ثابت ہے، قرآن نے غیبت سے نفرت دلانے کے لئے صاحب غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے والے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 }وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ{ [الحجرات:12]
ترجمہ: اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو)
۱۔ اپنے نفس کے عیوب تلاش کرنا:
انبیاء اوررسولوں کے علاوہ کوئی بھی انسان نفس کے عیوب سے پاک نہیں ہوسکتا، انسانوں میں کوئی شخص بے شمار عیبوں والا ہوسکتا ہے اور کوئی بہت کم عیب والا، تاہم ہر فرد میں کچھ نہ کچھ عیوب ہوتے ہیں، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ اپنے عیوب کو تلاش کرے اور ان کے اصلاح کی فکر کرے، یہ عمل اللہ تعالیٰ کے  نزدیک پسندیدہ اور بہتر ہے۔
۲۔ نقصاندہ تجارت:
صاحب غیبت اپنی نیکیوں اور حسنات کو برباد کرنے والا ہے، نیز وہ غیبت کے ذریعے اپنی نیکیوں کو جس کی غیبت کررہا ہے ، اس کے کھاتے میں منتقل کرنے والا ہے، غیبت کرنے والے کا حال ایسا ہے کہ وہ بیک وقت گناہ بھی کرتا ہے اور اپنی نیکیوں کو ضائع کرکے اپنے محسود کا فائدہ بھی کرتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''اگر میں کسی کی غیبت کرتا تو اپنے والد کی ہی غیبت کرلیتا''
۳۔ غیبت سے توبہ:
غیبت کرنے والا دوقسم کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے:
ایک جرم تو اللہ تعالیٰ کے حق میں کرتا ہے، جس کا کفارہ یہ ہے کہ اپنے جرم پر ندامت کا اظہار کرے، جبکہ دوسرا جرم بندے کے حق میں کرتا ہے ، جس کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت کی ہے ،اگر اُس شخص کو غیبت کا علم ہوا ہو تو اس سے معذرت کا اظہار کرے، اور اگر اس کو غیبت کا علم نہ ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرے اور اُس بندے کے حق میں نیک دعا کرے،نیز یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ سن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے اور اللہ کے فرشتے اس کے ایک ایک عمل کو قلمبند کررہے ہیں۔
 (۲)زبان کی دوسری عظیم آفت
چغلی:
زبان کی آفتوں میں سے ایک آفت چغلی بھی ہے ، چغلی وہ عمل ہے جس کےذریعے دو افراد کے درمیان پھوٹ ،جدائی اور اختلاف پیدا کیے جاتے ہیں۔
ارشاد ربانی ہے: }وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَهِينٍ (10) هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ]   { القلم: 10-11]
(ترجمہ: اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے۔طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا۔)
چغلی کے اسباب:
چغلی کے اسباب میں حسد، کراہیت ونفرت، اور مفاد کے حصول کی حرص شامل ہے۔
چغلی کا حکم اور شرعی دلائل:
۱۔ چغلی گناہ کبیرہ ہے، کتاب وسنت اور اجماع امت سے اس کی حرمت ثابت ہے، ارشاد ربانی ہے:
وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَهِينٍ (10) هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ  [القلم: 10-11] (ترجمہ: اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے۔طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا۔)
۲۔قرآن کریم میں چغلی کو حطب یعنی لکڑی سے تعبیر کیا گیا ہے، چونکہ چغلی باعث عداوت اور فساد ہے، اللہ تعالیٰ نے ابولہب کی بیوی کو حمالۃ الحطب کے لقب سے بیان فرمایا۔
۳۔ چغلخور کو اللہ تعالیٰ نے فاسق قرار دیا ، ارشاد ربانی ہے:
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ]    الحجرات: 6]
(ترجمہ: مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔)
نیز ارشاد ہے:
 [وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ] [الهمزة: 1]،
 (ترجمہ: ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے۔)
چغلی کا عمل مومنین مرد اور عورتوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کا باعث ہے، جس سے مومنین کو تکلیف پہنچتی ہے، دین اسلام نے مومن بھائی کو کسی بھی قسم کی تکلیف دینا حرام قرار دیا۔
دورخی آدمی:
چغلخور دورُخہ یا دوغلاپن اختیار کرنے والا ہوتا ہے، چونکہ اس کا کام ہر ایک کے سامنے اپنی الگ تصویر پیش کرکے آپس میں پھوٹ ڈالنا ہوتا ہے، دوغلاپن اختیار کرنے والا کل روز قیامت بدترین شخص ہوگا، بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 «إن شرّ النّاس ذو الوجهين الّذي يأتي هؤلاء بوجه وهؤلاء بوجه [متفق عليه].
(ترجمہ:"روز قیامت بدترین شخص وہ ہوگا جو دورُخہ ہوگا کہ ایک کی باتیں دوسرے کو اور دوسرے کی پہلے کو پہنچاتا ہو'')
چغلخور کے تئیں ایک بندہ مسلم کا کیا  موقف ہو؟:
۱۔ چغلی کرنے والے کی تصدیق نہ کرے۔
۲۔چغلخور کو اس کی اس حرکت سے منع کرے۔
۳۔چغلخور سے اُس کے گناہ کی وجہ سے بغض رکھے۔
۴۔چغلخور کی بات پر اپنے غائب بھائی سے بدگمان نہ ہوں۔
۵۔چغلخور کی بات کے سبب، اُس بات کے سلسلے میں کھوج نہ کرے۔
۶۔جو شخص چغلخور کو راضی نہیں کرتا وہ اُس کے فتنے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
(۳) زبان کی تیسری آفت:خلاف واقعہ کی خبردینا:
جھوٹ زبان کی خطرناک آفت اور ایک نفسیاتی مرض ہے، اگر انسان اس کا علاج نہ کرائے تو یہ مرض اسے جہنم تک پہنچادیتا ہے۔
وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ   [البقرة: 10]
.  (ترجمہ: اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔)
ایک بزرگ کا قول ہے:
"سب سے بڑی خطا چھوٹی زبان ہے"۔
جھوٹ کے اثرات:
جھوٹ کے تباہ کن اثرات سے جھوٹے لوگ اگر واقف ہوجائیں تو وہ جھوٹ سے ضرور توبہ کرلیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجائیں گے ، ذیل میں ہم چند تباہ کن اثرات کی جانب اشارہ کررہے ہیں:
۱۔ لوگوں کے نزدیک جھوٹے شخص کے سلسلے میں شک وشبہات پیدا ہوجاتےہیں۔
۲۔ جھوٹا شخص منافقین کی خصوصیات میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ منافقین کل قیامت کے دن جہنم کے بالکل نچلے حصے میں ڈال دیئے جائیں گے۔
۳۔ بیع وشراء میں سے برکت اٹھادی جاتی ہے، کیونکہ خرید وفروخت کے دوران شیطان جھوٹ بولنے پر زیادہ نفع اورکثیر فائدے کی لالچ بتاتا ہے، ایسے وقت میں بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کو بھول کر شیطان کی اتباع کرکے اپنے تجارت کی برکت کو ختم کردیتا ہے۔
۴۔ لوگوں کے درمیان سے جھوٹے شخص پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
۵۔ حقائق بدل جاتے ہیں، چونکہ جھوٹ کے خراب اثرات کے نتیجے میں جھوٹا شخص حق کو باطل اور باطل کو حق نیز معروف کو منکر اور منکر کو معروف کی شکل دیتا ہے۔
۶۔جھوٹ کی وجہ سے اعضاء جسمانی پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ، سب سے پہلے جھوٹ نفس سے زبان کی جانب سرایت کرتا ہے اور اسے خراب کرتا ہے پھر اعضاء میں سرایت کرتا ہے اور اعضاء کو بھی خراب کردیتا ہے۔
درحقیقت جھوٹے شخص کی راہ ومنزل جہنم ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو جہنم سے بچائے۔
وإنّ الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النّار، وإنّ الرجل ليكذب، حتى يكتب عند الله كذابًا»  [متفق عليه]
(ترجمہ: جھوٹ فسق وفجور کی طرف لیجاتا ہے اور فسق وفجور جہنم کی جانب لیجاتے ہیں، آدمی جھوٹ بولتا ہے حتی  کہ اللہ تعالیٰ کے پا س اسے جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔)
جھوٹ کی تباہ کن شکلیں:
جھوٹ سراسر قباحت اور برائی  ہے، نیز جھوٹا شخص جھوٹ کی قباحتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی سخت وعیدوں کا بھی اہل ہوجاتا ہے۔جھوٹ کی شکلوں کا ہم ذکر کررہے ہیں:
۱۔ سامان فروخت کرنے کے لئے جھوٹی قسم کھانا۔
۲۔ جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کے مال کو ہڑپ کرنا۔
۳۔ جھوٹا خواب بیان کرنا۔
۴۔ کسی واقعے کی غلط خبر دینا وغیرہ
جھوٹ سے بچنے کے طریقے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی کا استحضار کریں، اور اس کی ذات پر قوی اعتماد رکھیں، چونکہ انسان خیالی اشیاء کے خوف میں جھوٹ بولنے لگتا ہے اور شیطان اس کے دماغ میں جھوٹ کی شکلیں پیدا کرتا ہے۔
۲۔ قطعی یقین ہو کہ جو نوشتہ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہوکر رہے گا۔
۳۔ ریاضت نفس یعنی نفس کو ایسے اعمال پر آمادہ کریں جو مطلوبہ اخلاق کی متقاضی ہو، چونکہ نفس کا حال بچے کی طرح ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے، اگر دل خیر سے معمور ہے تو زبان سے خیر وبھلائی کے پتے جھڑنے لگتے ہیں اور اگر دل شرور وفساد کا منبع ہے تو پھر زبان سے خاردار پتیاں جھڑنے لگتی ہیں۔
إن الكلام لفي الفؤاد وإنّما***جُعِل اللسان على الفؤاد دليلًا
(ترجمہ:گفتگو کا اصل مرکز دل ہے اور زبان کو دل کا ترجمان بنایا گیا ہے۔)
ہمارا حال اس طرح نہیں ہونا چاہیے:
إن يعلموا الخير أخفوه وإن علموا** شرًّا أذاعوا وإن لم يعلموا كذبوا
(ترجمہ: انہیں خیر کا علم ہوتو اسے چھپاتےہیں اور اگر شرکی خبر ہو تواسے پھیلاتےہیں، اور اگر کسی بات کا علم نہ  ہوتو جھوٹ بولنے لگتے ہیں)
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتےہیں:
''عقلمند کی زبان اُس کے دل کے تابع ہوتی ہے، جب بات کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو پہلے سوچتا ہے، اگر فائدہ نظر آئے تو بات کرتا ہے ورنہ خاموش رہتا ہے''۔
حضرت لقمان نے اپنے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
"اے بیٹے! جب لوگوں کو اپنے حُسن کلام پر فخر کرتے ہوئے دیکھو تو تم اپنے حُسن سکوت پر فخر کرو''۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس موضوع سے متعلق مزید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:
1.        آفات اللسان /للشّيخ عبد الله الجار الله ، فهو هامٌ جدًّا، وقد أفدتُّ منه كثيرًا.
2.        آ فات اللسان في ضوء الكتاب والسّنّةللشّيخ سعيد بن على بن وهف القحطاني.
3.        حصائد الألسن.. / للعوايشة.

4.        غثاء الألسن /للشّيخ الفاضل، والدّاعية الموفق / إبراهيم الدّويش-  

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔