منگل، 2 جون، 2015

Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ka Tilawat ka Tariqa Part (1)

0 تبصرے




نبی کریم  ﷺکاتلاوت کا طریقہ

مولف
موید عبدالفتاح حمدان- کویت

ترجمہ وتلخیص
مبصرالرحمن قاسمی
(حصہ اول)
عرض مترجم

بسم الله والصلاة والسلام على معلم القرآن صلوة الله وسلامه عليه وبعد:
یہ کتابچہ اپنی ضخامت اور طوالت کے اعتبار سے بہت ہی معمولی ہے، لیکن اپنی افادیت ومنفعت کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، قرآن کریم کی تلاوت، اس کا تدبر،اسے سیکھنا اور اس پر عمل کرنا بھی حضور نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق ہوناچاہیے تاکہ ہمارا   تدبر قرآن اور تلاوت قابل قبول ہوسکے۔ارشاد باری تعالی ہے: ولكم في رسول الله أسوة حسنة (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے) یعنی آپ کی ہر ادا اور ہر عمل طریقہ نبوی کے مطابق ہو، زیر نظر کتاب دراصل عربی زبان میں لکھی گئی ہے، جسے راقم الحروف نے اجازت کے بعد اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے، اللہ تعالی اس عمل کو قبول فرمائے اور ذریعہ آخرت بنائے۔

مبصرالرحمن قاسمی



1- نبی کریم ﷺ جب قرآن پڑھنے کا ارادہ کرتے تو  اللہ تعالی کے حکم ﴿ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿النحل:٩٨پر عمل کرتے تھے۔ترجمہ:اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو .
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وسوسوں کو دفع کرنے کے لیے تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا  جمہور کے نزدیک اولی وافضل ہے۔
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: جمہور کے قول کے مطابق قرآن شروع کرنے سے پہلے {اعوذ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ} پڑھنا مستحب ہے(تفسیر قرطبی (۱-۸۶))
2 -  بسااوقات نبی کریم ﷺ قرآن شروع کرنے سے پہلے { أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وهَمْزِهِ }پڑھا کرتے تھے۔ (صفۃ صلاۃ النبی  ﷺ للالبانی  (۱/۲۷۱)

3- اور بسا اوقات آپ قرآن شروع کرنے سے پہلے : أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وهَمْزِهِ پڑھتے تھے (رواہ احمد فی مسندہ(۲۵۳/۵) قال شعیب الارنووط حسن لغیرہ، وکذا حسنہ الالبانی)

"اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم"  پر اکتفاء کا حکم:  ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی ﷺ قراءت ِقرآن سے پہلے ان ہی کلمات کے ذریعے شیطان مردو سے اللہ کی پناہ طلب کرتے  تھے۔
شیخ محمد بن محمد المختار الشنقیطی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: سورۃُ النحل میں یہی  الفاظ وارد ہیں: {فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ} ، اور جمہور قُراء کا اسی پر اتفاق ہے، یہ الفاظ دیگر کلمات سے افضل ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ان ہی کلمات کے ذریعے حکم دیا اور قرآن میں بیان فرمایا، لہذا متعین کلمات غیر متعین سے افضل ہیں ، اس لیے أَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشّيْطَانِ الرَّجِيمِ کے ک کو قرآن میں اس کی تعیین کی وجہ سے افضل قرار دیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک نبی کریم ﷺ کا  {أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ نَفْخِهِ وَنَفْثِهِ وهَمْزِه}کلمات سے قرآن شروع کرنا مذکور ہے تو یہ بطور جواز ہے، لیکن جو چیز جواز پر دلالت کرتی ہو ضروری نہیں ہے کہ وہ حکم کا درجہ رکھے، لہذا قرآن مجید میں مذکورہ تعوُذ کے کلمات اللہ تعالی کے منتخب کردہ ہے  لہذا یہی فضیلت کے حامل ہیں ۔  (مذکرۃ الشرح الزاد (1/1))۔
4-نبی ﷺ اگر کوئی سورہ شروع سے پڑھتے تو بسمِ اللہ سے شروع فرماتے :
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ایک دن حضور ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ اتنے میں آپ پر کچھ اونگھ سی طاری ہوئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سرِ مبارک اٹھایا۔ بعض روایات میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا آپ کس بات پر تبسم فرما رہے ہیں؟ اور بعض میں ہے کہ آپ نے خود لوگوں سے فرمایا اِس وقت میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر آپ نے سورۂ کوثر پڑھی۔ (رواہ مسلم(۴۰۰))۔
5- نبی ﷺ جب قرآن پڑھنا شروع فرماتے تو  ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے:
آپ صلی ﷺ اللہ تعالی کے ان ارشادات کو بخوبی بجالاتے تھے:  "وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا" (مزمل)  ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔
وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَىٰ مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلًا (سورة الإسراء)
ترجمہ: اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اُتارا ہے ۔
"لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ"  ( سورة  القیامہ)
 ترجمہ: اور (اے محمدﷺ) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کرلو ۔
الغرض آپ ﷺ قرآن کو آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے، تاکہ  امت پر ظاہر ہوجائے کہ وہ قرآن کس طرح پڑھیں، اورکس طرح سمجھیں۔
6- نبی ﷺ کی قراءت واضح ہوتی تھی، آپ تلاوت فرماتے تو ہر حرف  کوجدا جدا  ادا فرماتے (اسنادہ صحیح قال الالبانی صفۃ صلاۃ ص: 124  )،  پڑھنے میں عجلت نہیں فرماتے اور آپ ﷺ ہر آیت پر وقف فرماتے تھے :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قرآن پڑھتے ہوئے ہر آیت پر وقف کرتے تھے یعنی اس طرح پڑھتے الحمدللہ رب العالمین پھر ٹھہرتے، پھر پڑھتے الرحمن الرحیم پھر رکتے اور پھر پڑھتے ملک یوم الدین (اور پھر ٹھہرتے) . (رواہ الترمذی (2927) وصححہ الالبانی)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگرچہ  آیت کا تعلق مابعد سے کیوں نہ ہوپھر بھی آیت کے آخر میں وقف کرنا افضل ہے، اور بعض قراء کا یہ خیال ہے کہ آیت کے آخر میں وقوف کے موقع پر اغراض ومقاصدآیات کا لحاظ رکھنا چاہیے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اتباع اور آپ کی سنت پر عمل کرنا ہی اولی وافضل ہے. (زادالمعاد (1/327))
7- آپ ﷺ آواز کو کھینچ کر تلاوت فرماتے تھے:
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے پوچھا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کس طریقے سے تلاوت قرآن فرمایا کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا:  آپ ﷺ آواز کو کھینچ کر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( رواہ النسائی (۱۰۱۴)   وصححہ الالبانی۔)
اور ایک روایت میں ہے حضرت قتادہ بیان فرماتے ہیں: حضرت انس سے دریافت کیا گیا: کہ نبی کریم ﷺ کی تلاوت کا طریقہ کیا تھا؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ کی تلاوت  کھینچ کر ہوتی تھی، پھر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا، اور بسم اللہ  میں مد کو کھینچا، الرحمن کے مد کو کھینچا اسی طرح الرحیم کے مد کو کھینچ کر پڑھا[1]۔( رواہ البخاری)
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  اس سے مراد حروف مد اور حروف لین کو معروف مقدار اور  معلوم شروط کے ساتھ کھینچ کر پڑھنا ہے، اور مد سے مراد یہاں مد اصلی  ہے جسے مد ذاتی  یا مد طبعی بھی کہا جاتا ہے۔( مرقاۃ المفاتیح (۴/۸۰))

8- نبی ﷺ کی ٹھہر ٹھہر کر پڑھی جانے والی  چھوٹی سورت  بھی غیر ترتیل سے پڑھی جانے والی طویل سورت سے طویل ہوتی تھی۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی ﷺ کوئی سورہ پڑھتے تھے پس آپ اسے اس قدر ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے کہ وہ   سورت اس کے مقابلے  (قرآن کی دیگر )طویل سورتوں سے طویل ہوجاتی تھی۔
مطلب یہ ہے کہ آپ کی  اس سورت  کو پڑھنے کی مدت  اتنی لمبی ہوجاتی تھی کہ اگر اس سے طویل سورت کو غیر ترتیل سے پڑھا جائے تو  اس کا پڑھنا ختم ہوجائے۔( تحفۃ الاحوذی (۱۱/۳))
فائدہ: علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ قلت قراءت مع ترتیل  افضل ہے یا  تیزی کے ساتھ  اور بغیر ترتیل کے کثرت قراءت ؟
ابن قیم رحمہ اللہ نے ان دونوں اقوال  کے درمیان کی راہ اختیار کی ہے اور ابن حجر نے  بھی اسے ہی ترجیح دی ہے؛ ان دونوں کے بقول،  حافظ ابن حجر کے الفاظ میں: ترتیل سے اور رفتار سےدونوں طرح سے پڑھنے میں افضل یہ ہے کہ پڑھنے والا حروف، حرکات اور سکون وواجبات کو نظر انداز نہ کرے، اس طرح دونوں طرح سے پڑھنا افضیلت میں یکساں ہوسکتا ہے، اگر کوئی شخص  ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور غوروتدبر کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس کی مثال ایک عدد قیمتی  موتی صدقہ کرنے والے کی طرح ہے اور جو رفتار سے تلاوت کرے اس کی مثال ایک عدد قیمتی موتی کی قیمت کے کئی موتی صدقہ کرنے والے کی طرح ہے، اور کبھی صرف ایک عدد موتی کی قیمت کئی موتیوں کی قیمت سے زیادہ ہوسکتی ہے اور کبھی اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔( فتح الباری (۸۹/۹))
9 -  آپ ﷺ دوران تلاوت ہر ہر آیت پر غور فرماتے تھے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ انھوں نے حضورنبی کریم  کی سب سے عجیب چیز کیا دیکھیں؛ تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! مجھے چھوڑدو کہ میں رات میں میرے رب کی عبادت کروں، انھوں نے کہا: بخدا !  مجھے آپ کی قربت محبوب ہے، اور مجھے ہر وہ چیز پسند ہے جس سے آپ خوش ہوتے ہیں، فرماتی ہیں: پس آپ ﷺ اٹھے، وضو فرمایا اور پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے، فرماتی ہیں: دوران نماز آپ برابر روتے رہے حتی کہ آپ کا گود تر ہوگیا، فرماتی ہیں: پھر آپ ﷺ روتے رہے حتی کہ آپ کی داڑھی مبارک بھی تر ہوگئی، فرماتی ہیں: پھر آپ روتے رہے حتی کہ زمین تر ہوگئی، پھر حضرت بلال نماز کے لیے اذان دینے آئے، جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ کیوں روتے ہیں حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کا اگلا پچھلا سب معاف کردیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں، آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے، بربادی ہو اس کی جس نے یہ آیت پڑھا اور اس پر غور نہ کیا، وہ آیت یہ ہے: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿آل عمران:١٩٠﴾ ۔ ترجمہ: بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (رواہ ابن حبان فی صحیحہ (۶۲۰) قال شعیب الارنوط: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم)

10- کبھی آپ ﷺ پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے تھے اور اس پر غور فرماتے تھے:

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز کے وقت لوگوں کو نماز پڑھائی، نماز کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیچھے ہٹ کر نوافل پڑھنے لگے، نبی ﷺ یہ دیکھ کر اپنے خیمے میں واپس چلے گئے، جب دیکھا کہ لوگ جاچکے ہیں تو  آپ نے اپنی جگہ پر واپس آکر نوافل پڑھنا شروع فرمایا، میں پیچھے سے آیا اور نبی ﷺ کےپیچھے کھڑا ہوگیا، نبی ﷺ نے اپنےدائیں ہاتھ سے مجھے اشارہ کیا اور میں ان کی دائیں جانب جاکر کھڑا ہوگیا، تھوڑی دیر بعد حضرت عبداللہ بن مسعود  بھی آگئے، وہ ہمارے پیچھے کھڑے ہوگئے، نبی ﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ سے ان کی طرف اشارہ کیا اور وہ بائیں جانب جاکر کھڑے ہوگئے۔اس طرح ہم تین آدمیوں نے قیام کیا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی نماز پڑھ رہا تھا، اور اس میں جتنا اللہ کو منظور ہوتا، قرآن کریم کی تلاوت کرتا تھا، اور نبی ﷺ اپنے قیام میں ایک ہی آیت کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ نماز فجر کا وقت ہوگیا، صبح ہوئی تو میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود  کی طرف اشارہ کیا کہ نبی ﷺ سے رات کے عمل کے متعلق سوال کریں لیکن انھوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سےجواب دیا کہ میں تو اس وقت تک نبی ﷺ سےکچھ نہیں پوچھوں گا جب تک وہ از خود بیان نہ فرمائیں۔ چنانچہ ہمت کرکے میں نے ہی خود ہی عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ساری رات قرآن کریم کی ایک ہی آیت پڑھتے رہے حالانکہ آپ کے پاس تو سارا قرآن ہے؟ اگر ہم میں سے کوئی شخص ایسا کرتا تو ہمیں اس پر غصہ آتا، نبی ﷺ نے فرمایا:  میں اپنی امت کے لیے دعاء کررہا تھا، میں نے پوچھا کہ پھر آپ کو  کیا جواب ملا؟ نبی ﷺ نے فرمایا:  ایسا جواب کہ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو وہ نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیں، میں نے عرض کیا کہ کیا میں لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سنادوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں، چنانچہ میں گردن موڑ کر جانےلگا، ابھی اتنی دور ہی گیا تھا کہ جہاں تک پتھر پہنچ سکے، کہ حضرت عمر کہنے لگے: اگر آپ نے انہیں یہ پیغام دے کر لوگوں کے پاس بھیج دیا تو وہ عبادت سے بے پرواہ ہوجائیں گے، اس پر نبی ﷺ نے انھیں آواز دے کر واپس بلالیا، اور وہ واپس آگئے، اور وہ آیت یہ تھی:

ترجمہ: اے اللہ! اگر تو انھیں عذاب میں مبتلا کردے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انھیں معاف کرد ے تو تو بڑا غالب حکمت والا ہے۔




0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔