منگل، 2 جون، 2015

Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ka Tilawat ka Tariqa Part (3)

0 تبصرے


نبی کریم  ﷺکاتلاوت کا طریقہ

مولف
موید عبدالفتاح حمدان- کویت

ترجمہ وتلخیص
مبصرالرحمن قاسمی
(حصہ سوم)



21-    نبی ﷺ بیٹھ کر، کھڑے رہ کر، چلتے ہوئے اور حالت سواری  تمام حالتوں میں قرآن پڑھتے تھے:
ارشاد باری تعالی ہے: الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ ﴿سورة آل عمران:١٩١
ترجمہ: جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے۔
ابن جریج کہتے ہیں: آیت بالا میں ذکر سے نماز اور غیر نماز میں اللہ کا ذکر کرنا اور قرآن پڑھنا مراد ہے۔
لہذا مذکورہ تمام کیفیتوں میں معروف شرائط کے ساتھ نماز درست ہے اور قراءت قرآن نماز کا ایک حصہ ہے، متعدد احادیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ان تمام حالتوں میں نماز سے باہر قرآن پڑھا ہے۔


 - حالت جلوس میں نبی ﷺ کا قرآن پڑھنا:
عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ایک شب نبی ﷺ کی زوجہ میمونہ کے گھر میں رہے اور وہ ان کی خالہ ہیں، ابن عباس کہتے ہیں میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی زوجہ اس کے طول میں لیٹیں، رسول ﷲ ﷺ سو گئے، جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس سے کچھ بعد، تو رسول ﷲ ﷺ بیدار ہوئے اور نیند میں اپنے چہرہ کو اپنے ہاتھ سے ملتے ہوئے بیٹھ گئے، پھر سورہ آل عمران کی آخری دس آیتیں آپ نے پڑھیں، اس کے بعد ایک لٹکی ہوئے مشک کی طرف (متوجہ ہو کر) آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے وضو کیا، اس کے بعد نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔
- حالت سواری میں نبی ﷺ کا قرآن پڑھنا:
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فتح مکہ کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فتح پڑھ رہے تھے۔

- حالت قیام میں نبی ﷺ کا قرآن پڑھنا:
حضرت عمرہ بنت  عبدالرحمن اپنی بہن سے روایت کرتی ہیں کہ انھوں  نے کہا: میں نے سورۃ ق  والقرآن المجید جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ سے سیکھی (یعنی حفظ کی) جسے آپ ہر جمعہ کو منبر پر پڑھتے تھے۔

22-  آپ ﷺ بسا اوقات ٹیک لگا کر بھی قرآن پڑھتے تھے:
حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ ہم (ازواج مطہرات)  میں سے  کسی  کے گود میں سر رکھتے تھے اور قرآن پڑھتے تھے جبکہ وہ حیض  سے ہوتی تھیں۔
آپ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ ﷺ میرے گود میں ٹیک لگاتے تھے اور میں حیض سے ہوتی تھی، پس آپ  (اس دوران)قرآن پڑھتے تھے۔
 امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان احادیث سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ حیض والی عورت یا کسی نجات کی جگہ سے قریب قرآن کی تلاوت کی جاسکتی ہے۔

23-  نبی کریم ﷺ قرآن کا مستقل دور فرمایا کرتے تھے اور کبھی  بھی اپنے معمول کو ترک نہیں فرماتے تھے۔
حضرت اوس بن حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کے بعد ہمارے ہاں روزانہ تشریف لاتے اور بات چیت کرتے تھے، ابو سعید  کہتے ہیں: آپ اپنے پاوں پر کھڑے کھڑے باتیں کرتے اور زیادہ دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے کبھی ایک پاوں پر زور دے کر کھڑے ہوتے کبھی دوسرے پر، اور آپ ﷺ بالعموم اپنی قوم قریش کے ساتھ گزرے حالات بیان کرتے، فرماتے: ہم مکے میں برابر نہ تھے، بلکہ کمزور وناتواں تھے، ، جب ہم مدینے آگئے تو ہم میں اور ان میں لڑائی شروع ہوگئی، کبھی ہم ان پر غالب آتے کبھی وہ،  ایک رات آپ ﷺ نے اپنے مقررہ وقت پرآنے میں تاخیر کردی تو ہم نے کہا آج آپ تاخیر سے تشریف لائے ہیں؟ فرمایا: میرا ایک جزء قرآن کا رہتا تھا ، میں نے اس کی تلاوت مکمل کیے بغیر آنا پسند نہ کیا۔ اوس کہتے ہیں: میں نے اصحاب رسول ﷺ سے معلوم کیا کہ آپ لوگ قرآن کے حصے کس طرح کرتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ پہلا حصہ تین سورتوں کا، (بقرہ، آل عمران اور نساء)دوسرا حصہ سات سورتوں کا (مائدہ سے براءۃ تک) تیسرا حصہ  سات سورتوں کا (یونس سے نحل تک)چوتھا حصہ نو سورتوں کا (بنی اسرائیل سے فرقان تک) پانچواں حصہ گیارہ سورتوں کا(شعراء سے یس تک) چھٹا حصہ تیرہ سورتوں کا (صافات سے حجرات تک) اور ساتواں حصہ مفصل کا(یعنی ق سے  الناس تک)
ابن الہاد بیان کرتے ہیں کہ نافع بن جبیر بن مطعم (تابعی) نے مجھ سے پوچھا کہ تم کتنے دنوں میں قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں اس کے حصے نہیں کرتا ہوں، تو نافع نے کہا کہ اس طرح مت کہو کہ میں اس کے حصے نہیں کرتا کیونکہ رسول اللہ فرمایا کرتے تھے:میں نے قرآن کا ایک جزء (حصہ) پڑھا۔
حزب (حصہ) کا مطلب ہے بطور ورد اور وظیفے کے کوئی حصہ مقرر کرلینا، ابن الہاد نے ایسا کرنے سے انکار کیا، جس پر نافع نے کہا: اس کے انکار کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ حصے حصے کرکے قرآن پڑھنا خود نبی سے ثابت ہے۔لہذا قرآن کریم کے جو حصے [ربع، نصف، ثلث، رکوع اور جزء یعنی پارہ] بنے ہوئے ہیں ، یہ اگرچہ رسول اللہ کے مقرر کردہ نہیں ہیں لیکن یہ عوام کی آسانی کے لیے بنائے گئے ہیں۔

24-نبی ﷺ ہر سال اپنے معلم اول جبریل کو  قرآن سناتے تھے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ہر سال(رمضان) میں ایک مرتبہ حضرت جبریل کو قرآن سناتے تھے اور جس سال نبی کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دو مرتبہ قرآن سنا یا۔
اور آپ ہی سے مروی ہے ، فرمایا کہ رسول اللہ سب سے زیادہ سخی تھے اور خاص طور پر رمضان میں جب جبرائیل آپ سے ملتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور جبرائیل آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور قرآن کا دور کرتے، نبی بھلائی پہنچانے میں ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس میں آپ کی جود وسخاوت کی اعلی سطح کو بیان کیا گیا ہے، آپ کے اس معمول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان میں کثرت سے خیر وخیرات کرنا مستحب ہے، اس حدیث سے یہ  بھی معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور ان کی جدائی سے انسان میں خیرات اور عمل خیر کو کثرت سے کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور تیسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ سال میں ایک مرتبہ  قرآن کا دور کرنا  مستحب ہے۔

25-  کبھی نبی ﷺ اپنے بعض ماہر ومُتقن صحابہ کو قرآن سناتے تھے:
جیسا کہ  آپ ﷺ نے حضرت ابی بن کعب سے فرمایا: اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے سامنے (لم يكن الذين كفروا) پڑھوں، (اُبی نے کہا) کیا اللہ نے آپ کو میرا نام لے کر کہا؟ آپ نے فرمایا : ہاں ، (راوی) کہتے ہیں: اس  بات پر اُبی  روپڑے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت اُبی کے سامنے قرآن پڑھنے کا آپ کو حکم دینے کی مازری اور قاضی حکمت بیان کرتے ہیں: اس کی یہ وجہ تھی کہ آپ کے الفاظ، اداء، مقامات وقوف اور قرآن کے اس ترنم کو  اُبی سیکھے جو شریعت نے مقرر کیا ہےاور اس ترنم سے گریز کرے جو قرآن کے علاوہ کے لیے مستعمل ہے، لہذا آپ نے حضرت اُبی کو اس لیے قرآن سنایا تھا تاکہ وہ آپ سے پڑھنے کا انداز اور طریقہ سیکھے۔

26-  اور آپ ماہرقراء سے قرآن سیکھنے کا حکم فرماتے تھے:
حضرت مسروق بیان کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عبداللہ کا ذکر کیا گیا، تو آپ نے فرمایا: وہ ایک ایسے انسان ہے جن کے بارے میں نبی ﷺ کے فرمان کو سننے کے بعد سے ، ان سے میں برابر محبت کرتا ہوں، آپ ﷺ فرماتے تھے: چار لوگوں سے قرآن سیکھو: عبداللہ بن مسعود سے، حضرت ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم سے، معاذ بن جبل سے اور اُبی بن کعب سے۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے انھیں خوشخبری سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص یہ چاہتا ہو کہ قرآن ویسا پڑھے جیسا نازل ہوا تو اسے چاہیے کہ وہ ابن اُم عبد کی قراءت کے مطابق پڑھے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء کے بقول: اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ  چاراصحاب رسول ﷺ قرآن کے الفاظ کی ادائیگی اور اس میں مہارت میں تمام صحابہ سے آگے تھے، گرچہ  دیگر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم  قرآن کے معانی ومفاہیم کو ان کےمقابلے اچھی طرح سمجھنے والے تھے ، دوسری وجہ یہ ہے کہ ان چار صحابہ نے  اپنی ذات کو فارغ کرکے نبی ﷺ سے بالمشافہ قرآن پڑھا تھا، جبکہ ان کے علاوہ صحابہ نے ایک دوسرےسے قرآن سیکھا تھا، یا پھر اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ چاروں صحابہ نے قرآن پڑھانے کے لیے اپنی ذات کو فارغ کردیا تھا، یا پھر آپ ﷺ نے یہ اعلان کرنا چاہا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد قرآن پڑھنے اور سیکھنے کے لیے ان چاروں صحابہ کو ترجیح دی جائے۔

27- نبی ﷺ اپنے علاوہ سے قرآن سننا پسند فرماتے تھے:
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: میرے سامنے قرآن پڑھو!  عبداللہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے سامنے پڑھوں حالانکہ قرآن آپ پر نازل ہوا؟  فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ سے سنوں، تو میں نے سورہ نساء پڑھی، حتی کہ میں اس آیت پر پہنچا : " فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا ﴿النساء:٤١(پھر) میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ  آپ ﷺ کے آنسو جاری ہیں۔" ( ترجمہ: بھلا اس دن کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا حال (بتانے کو) گواہ طلب کریں گے۔ )
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:  کُفَّ(بس کرو) یا فرمایا: اَمسِك (رک جاو)، پس آپ کے آنسو جاری تھے۔( رواہ البخاری (۴۷۶۲) و مسلم (۸۰۰))

28-  نبی ﷺ قرآن پڑھنے والے کو قراءت کے دوران روکنا ہوتو : اَحسَنتَ، حَسبُك،  یا   أَمسِك جیسے الفاظ کہتے تھے:
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: میں حُمص میں تھا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں قرآن مجید پڑھ کر سنائیں میں نے انہیں سورة یوسف پڑھ کر سنائی، ان لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا کہ یہ سورة اس طرح نازل نہیں ہوئی میں نے کہا کہ تجھ پر افسوس ہے اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ سورت اسی طرح سنائی تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا: اَحسَنتَ۔ (رواہ البخاری (۴۷۶۲) و مسلم (۸۰۰))
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: نبی ﷺ نے  مجھ سے فرمایا:  میرے سامنے پڑھو ، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے سامنے پڑھوں حالانکہ قرآن آپ پر نازل ہوا؟ فرمایا : ہاں، پس میں نے سورہ نساء پڑھی، حتی کہ میں اس آیت پر پہنچا : " فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا ﴿النساء:٤١ " آپ نے فرمایا: حَسبُكَ الآن، جب میں آپ کی جانب متوجہ ہوا تو آپ کےآنسو جاری تھے۔ ( ترجمہ: بھلا اس دن کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا حال (بتانے کو) گواہ طلب کریں گے۔ ) (رواہ البخاری (۴۷۶۳))

29- نبی ﷺ قراءت میں  خلل نہ ڈالنے کا حکم دیتے تھے:
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے ایک شخص کو ایک آیت پڑھتےہوئے سنا، جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھے پڑھایا تھا، اس نے اس کے خلاف پڑھا تھا، تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ حضرت علی کے ساتھ سرگوشی فرما رہے تھے، لہذا میں نے انھیں یہ بات بتائی، تو حضرت علی ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: رسول اللہ ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم ویسا پڑھو جیسا تمہیں سکھایا گیا ہے۔( رواہ ابن حبان (۷۴۶) وحسنہ شعیب الارنووط)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ میں نے ایک آدمی کو (حم) یعنی (سورۃ الاحقاف) پڑھتے ہوئے سنا، تو اس نے ایک حرف پڑھا، اور دوسرے ایک شخص نےاپنے ساتھی سے الگ دوسرا حرف پڑھا، اور میں نے کئی حروف پڑھے، جسے میرے دونوں ساتھیوں نے نہیں پڑھے، لہذا ہم نبی ﷺ کی جانب چل پڑے اور آپ کو خبر دی، پس آپ نے فرمایا:  اختلاف نہ کرو، تم سے پہلے والے ان کے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے، پھر آ پ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے اس شخص کو تلاش کرو جو سب سے اچھا پڑھنے والا ہے اور پھر اس سے پڑھنا سیکھو۔( رواہ احمد فی مسندہ (۴۰۱/۱) وحسنہ شعیب الارنووط)

30- نبی ﷺ جب کسی سجدہ والی آیت تلاوت کرتے تو عام طور پر سجدہ کیا کرتے تھے:
 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: نبی ﷺ آیت سجدہ پڑھتے تھے اور ہم آپ کےپاس ہوتے تھے، پس آپ سجدہ فرماتے  اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے، جس کی وجہ سے خوب بھیڑ ہوجاتی ، حتی کہ ہم میں سے بعض کو سجدہ کرنے کے لیے پیشانی رکھنے کے لیے بھی جگہ نہیں ملتی۔ اور کبھی کبھی آپ ﷺ سجدہ چھوڑ دیتے تھے۔( رواہ البخاری (۱۰۲۶) ومسلم (۵۷۵))
زید بن ثابت سے مروی ہے فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم ﷺ کو سورہ والنجم سنائی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں فرمایا۔( رواہ البخاری (۱۰۷۳) ومسلم (۵۷۷) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔)

31-  نبی ﷺ تلاوت کے سجدوں میں یہ دعا پڑھتے تھے: [سجدَ وجهيَ للذي خلقَه؛ وشقَّ سمْعَه وبصَرَه بحولهِ وقوتهِ].
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سجدہ تلاوت  میں یہ دعا تکرار سے پڑھا کرتے تھے: [سجدَ وجهيَ للذي خلقَه؛ وشقَّ سمْعَه وبصَرَه بحولهِ وقوتهِ]. میرا چہرہ اس ذات کے لیے سجدہ ریز ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی طاقت اور قوت سے اس کے کان اور آنکھ بنائے۔( رواہ ابوداود (۱۴۱۴) وصححہ الالبانی۔)

32-  اور بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ تلاوت میں یہ دعا پڑھتے تھے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي بِهَا ، اللَّهُمَّ حُطَّ عَنِّي بِهَا وِزْرًا ، وَأَحْدِثْ لِي بِهَا شُكْرًا ، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ سَجْدَتَهُ
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ گویا میں ایک درخت کے نیچے ہوں، اور گویا درخت سورۃ ص پڑھ رہا ہے، جب وہ آیت سجدہ پر پہنچا تو  اس نے سجدہ کیا اور اپنے سجدے میں یہ دعاء پڑھی: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي بِهَا ، اللَّهُمَّ حُطَّ عَنِّي بِهَا وِزْرًا ، وَأَحْدِثْ لِي بِهَا شُكْرًا ، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ سَجْدَتَهُ (ترجمہ: اے اللہ ! اس کے ذریعے میری مغفرت فرما، اے اللہ ! اس کے ذریعے میرے گناہ مٹادے، اور اس کے ذریعے مجھے شکر کی توفیق دے، اور اس سجدے کو مجھ سے ویسا قبول فرما جیسا تونے اپنے بندے داود سے اس کے سجدے کو قبول فرمایا۔) صبح کو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور واقعہ سنایا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابوسعید! کیا تم نے سجدہ کیا؟ میں نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم درخت کے مقابلے سجدے کے زیادہ مستحق تھے، پھر آپ نے سورۃ ص پڑھی، پھر آیت سجدہ پر پہنچے تو سجدہ فرمایا اور سجدہ میں وہی کلمات دہرائے جو درخت نے پڑھے تھے۔( رواہ ابویعلی فی مسندہ (۱۰۶۹)وحسنہ الالبانی السلسۃ الصحیحہ(۲۷۱۰)




0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔