منگل، 2 جون، 2015

Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ka Tilawat ka Tariqa Part (2)

0 تبصرے
نبی کریم  ﷺکاتلاوت کا طریقہ

مولف
موید عبدالفتاح حمدان- کویت

ترجمہ وتلخیص
مبصرالرحمن قاسمی
(حصہ دوم)

11-  آپ ﷺ بسااوقات نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھا کرتے تھے؛ جب کسی رحمت والی آیت سے گذرتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے، جب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں عذاب کا ذکر ہے ٹھہرجاتے اور اللہ کی پناہ طلب کرتے اور جب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں اللہ کی پاکی بیان کی جارہی ہے تو آپ اس پر اللہ کی پاکی بیان کرتے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں: ایک دن میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ شروع فرمائی، میں نے دل میں کہا: سو آیات پر ایک رکعت فرمائیں گے، لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ ایک رکعت میں پوری سورت پڑھیں گے لیکن آپ نے جاری رکھا، پھر میں نے خیال کیا کہ آپ سورہ مکمل کرکے رکوع فرمائیں گے لیکن آپ نے اس کے بعد سورہ نساء شروع کی، اورپھر سورہ آل عمران شروع کردی اور اسے بھی مکمل کیا، آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہے تھے، آپ جب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں تسبیح ہوتو اللہ کی پاکی بیان فرماتے، اور جب کسی سوال والی آیت سے گذرتے تو اللہ سے سوال کرتے اور جب پناہ والی آیت سے گذرتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے۔( مسلم (772)  )
اور ایک روایت میں  ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی رحمت والی آیت سے گذرتے تو سوال کرتے، اور جب کسی عذاب والی آیت سے گذرتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے اورجب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں اللہ کی پاکی اور کبریائی کا ذکر ہوتو آپ سبحان اللہ کہہ کر اللہ کی پاکی بیان کرتے۔ (ابن ماجہ(1351) وصححہ الالبانی   )
حضرت مسلم بن مخراق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ کوان  چند لوگوں کے بارے میں بتایا گیا جو ایک رات میں ایک یا دو مرتبہ قرآن ختم کرتے ہیں، تو آپ رضی اللہ عنہا نے کہا: ان لوگوں نے پڑھکر بھی نہیں پڑھا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات  رات بھر نماز پڑھی، آپ سورہ بقرہ ، آل عمران اور سورہ نساء پڑھتے تھے، پس آپ کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں ڈرایا گیا ہے تو اللہ سے دعا کرتے تھے اور پناہ طلب کرتے  اور جب کسی ایسی آیت سے گذرتے جس میں خوشخبری سنائی گئی ہے تو آپ اللہ سے دعاگو ہوتے تھے اور اس میں اپنی دلچسپی کا اظہار فرماتے تھے۔([رواہ احمد فی مسندہ: 92/6].قال شعیب الارنووط: صحیح لغیرہ۔)
اور ایک صحابی رسول حضرت عوف بن مالک الاشجعی بیان کرتے ہیں: ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قیام لیل پڑھی، آپ نے سورہ بقرہ پڑھی، پس جب آپ ﷺ کسی رحمت والی آیت سے گذرتے تھے تو اللہ سے سوال کرتے تھے اور جب عذاب سے متعلق کسی آیت سے گذرتے تو ٹھہرجاتے تھے اور اللہ کی پناہ چاہتے تھے۔( رواہ ابوداود(873)وصححہ الالبانی)

12-تلاوت کے دوران آپ ﷺ کی آنکھیں نم رہتی اور آپ کے سینے مبارک سے رونے کی وجہ سے ہانڈی کے پکنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔
عبداللہ بن  شخیر   رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے ہانڈی کے پکنے کی طرح آواز آرہی تھی۔( رواہ ابن حبان (753) وقال شعیب الارنووط اسنادہ صحیح علی شرط مسلم۔)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ بآواز بلند نہیں روتے تھے بلکہ صرف آپ کے آنسو بہتے تھے، اور سینے مبارک سے ایک قسم  کی آواز سنائی دیتی تھی، جب آپ قرآن سماعت فرماتے تو محبت واشتیاق اور خشیت وخوف کے مارے روپڑتے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ جب آپ کو سورہ نساء سنانے لگے اور اس آیت پر پہنچے" فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا ﴿ النساء:٤١ " تو آپ روپڑے۔   ترجمہ آیت: بھلا اس دن کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتائے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا حال (بتانے کو) گواہ طلب کریں گے۔ (ابوداود: (1194))
اسی طرح جب سورج گہن ہوا تو آپ ﷺ نے صلاۃ الکسوف پڑھی اور نماز کے دوران روپڑے، آپ پھونکتے جارہے تھے اور فرمارہے تھے: "رب الم تعدنی الا تعذبهم وانا فيهم وهم يستغفرون  ونحن نستغفرك"( ابوداود: (1194)  ) ترجمہ: اے میرے رب تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ توانھیں عذاب نہیں دے گا اس حال میں کہ میں ان کے درمیان موجود رہوں، وہ مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہم تجھ سے معافی چاہتے ہیں۔
اسی طرح آپ ﷺ بسا اوقات تہجد کی نماز میں بھی روتے تھے۔( زادالمعاد (1/177)   )

13- آپ ﷺ خوبصورت آواز میں تلاوت فرماتےتھے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم کو عشاء (کی نماز) میں سورۃ التین )وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُونِ ( پڑھتے ہوئے سنا، اور میں نے کسی کو آپ ﷺ سے اچھی آواز اور قرات والا نہیں سنا۔ (رواہ الدارمی(۳۵۰۱)، صححہ البانی فی صحیح الجامع (۳۱۴۵))
حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں: میں نے مغرب کی نماز میں نبی ﷺ کو سورۃ الطور پڑھتے ہوئے سنا، جب آپ ان آیات پر پہنچے توقریب تھا کہ میرا دل اڑجاتا۔(وہ آیات یہ ہیں) أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ﴿٣٥أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ ﴿٣٦أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ ﴿٣٧  ترجمہ: کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں۔ یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں ،یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ (نہیں) بلکہ یہ یقین ہی نہیں رکھتے ،کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کے خزانے ہیں۔ یا یہ (کہیں کے) داروغہ ہیں؟
اس طرح کی کیفیت کا پیدا ہونا ضروری تھا کیونکہ صحابی رسول ان آیات کو ایسی ہستی سے سن رہے تھے جس کی آواز سارے انسانوں میں حسین وجمیل ، قراءت قرآن میں جس کا خشوع سب سے بڑھکر، تدبر قرآن میں جو سب سے آگے اور عمل کے اعتبار سے جو ذات سب سے اعلی وبرترہے۔

14- آپ ﷺ خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
ارشاد گرامی ہے: اپنی آواز کے ذریعے قرآن کو حسن بخشو، کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن کو دوبالا کرتی ہے،(رواہ ابوداود (۱۴۶۸)، صححہ البانی)اور ایک روایت میں ہے: اپنی آواز کے ذریعے قرآن کو زینت بخشو۔(رواہ الطبرانی (۱۰۰۳۲)، حسنہ الالبانی فی السلسلہ الصحیحہ (۱۸۱۵))
اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے: اچھی آواز قرآن کی زینت ہے۔( فضائل القرآن ص ۱۲۵)
حضرت طاوس  فرماتے ہیں: لوگوں میں قرآن کو خوبصورت آواز میں پڑھنے والا لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شرعا مطلوب وہ خوبصورت آواز ہے جو تدبر قرآن، تفہیم قرآن، خشوع وخضوع اور اطاعت وبندگی پر آمادہ کرے۔(روضۃ المحبین ص ۲۶۸)

15- آپ ﷺ ہمیشہ خوش الحانی سے قرآن پڑھتے تھے۔
وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن مجید کو خوب خوش اِلحانی کے ساتھ نہیں پڑھتا۔   (رواہ ابوداود   (۱۴۷۱)، صححہ البانی، والحدیث اصلہ فی الصحیحین) ابن ابی ملیکہ مذکورہ حدیث کے ایک روای ہیں سے کہا گیا: اے ابو محمد! تمہاری کیا رائے ہے، اگر کسی کی آواز اچھی نہ ہو؟ انہوں نے جواب دیا: اس کے لئے جہاں تک ممکن ہو خوبصورت آواز میں پڑھنے کی کوشش کرے۔( رواہ ابوداود (۱۴۷۱)، حسنہ البانی)
آواز اور ادائیگی میں خوبصورتی پیدا کرنے او ر خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم : شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مذکورہ حدیث کی تشریح میں اکثر فقہاء اور مفسرین بالخصوص امام شافعی ، احمد بن حنبل اور دیگر کی رائے ہے کہ اس کا مطلب آواز کو خوبصورت بنانا ہے۔لہذا اگر کوئی شخص قرآن کریم کو خوبصورت اور اچھی آواز میں پڑھے تو افضل ہے، لیکن قرآن کو نغموں کے انداز میں تکلف کے ساتھ پڑھنا جمہور علماء کے نزدیک منع ہےاور اسے بدعت کہا گیا ہے، کیونکہ اس میں قرآن کو نغموں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور قاری نغموں کے وزن پر الفاظ قرآن کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے، کلمات قرآن کو سمجھنے اور اس پر غور کرنے پرتوجہ نہیں دی جاتی ہے جبکہ سامعین ایسے قاری کو صرف اس کی خوش الحانی کی وجہ سے سنتے ہیں نہ کہ قرآن کی سماعت، اس کےفہم وتدبر اور انتفاع کی غرض سے ، جیسا کہ عام طور پر نغموں کو سناجاتا ہے۔( رسالۃ الی السلطان الملک الناصری ص۵  )

16-  تلاوت قرآن کے  وقت آپ ﷺ قرآن کو  خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم دیتے تھے:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں قرآن پڑھتے ہوئے بیٹھے  تھے، تو رسول اللہ تشریف لائے، سلام فرمایا، ہم نے سلام کا جواب دیا پھر آپ  نے فرمایا : کتاب اﷲ سیکھو، اور اس کی دیکھ بھال کیا کرو۔ عقبہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: اور خوش اِلحانی کے ساتھ اس کی تلاوت کیا کرو، پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! بیشک یہ قرآن (سینوں سے) اونٹنیوں سے ان کی رسیوں (جس سے وہ باندھی گئی ہوں) سے چھوٹنے سے بھی زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے۔ ( رواہ احمد فی مسندہ(150/4)، وقال شعیب الارنووط: حدیث صحیح)
خوش الحانی سے قرآن پڑھنے  کے ساتھ علم اور تقوی کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ قراءت قرآن میں خشوع  اور تدبر کی کیفیت پیدا ہو، صرف حسن صوت اور خوش الحانی قابل تحسین نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات  یہ چیز قابل مذمت  وعیب ہے، کیونکہ بغیر علم وتدبر کے خوش الحانی  انسان کو ریاء وشہرت کے ذریعے ہلاک کرسکتی ہے۔

17 - آپ ﷺ اپنی امت کے افراد کی حسن قراءت کی تحسین فرماتے تھے اور اللہ کا شکر ادا کرتے تھے :
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ایک رات عشاء کے بعد مجھے(حاضر خدمت ہونے میں) دیر ہوگئی، پھر میں آئی تو نبی نے فرمایا: تم کہاں تھیں؟ میں نے کہا: میں آپ کے ایک صحابی کی قراءت سن رہی تھی، میں نے کسی اور کی ایسی (عمدہ) قراءت اور آواز نہیں سنی، اُم المومنین نے بیان فرمایا: اللہ کے نبی اٹھ کھڑے ہوئے، میں بھی اٹھ کر آپ کے ساتھ گئی حتی کہ آپ ﷺ نے بھی اس کی قراءت سنی، پھر میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: یہ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولی سالم ہیں، اللہ کی تعریف ہے (اور اس کا شکر ہے) جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا فرمائے۔( رواہ ابن ماجہ (1338) وصححہ الالبانی)

18- آپ ﷺ خوش آواز والوں کے قرآن کو سن کر خوشی کا اظہار فرماتے تھے:
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے رات میں میری تلاوت سنی، جب صبح میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا: ابوموسی! رات میں نے تمہاری قراءت سنی، یقینا تمہیں تو آل دواد کا ساز عطا کیا گیا ہے میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اگر مجھے آپ کی موجودگی کا علم ہوتا تو میں قرآن کو مزید مزین کرکے پڑھتا۔( رواہ ابن حبان فی صحیحہ (۷۱۹۷) قال شعیب الارنوط: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم)

19-نبی اکرمﷺ کبھی بآواز بلند قرآن  پڑھتےتھے اور کبھی دھیمی آواز سے:
حضرت عضیف بن حارث کہتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا رسول اللہ ﷺ قرآن کو  بآواز بلند پڑھتے تھے یا آہستہ آواز سے؟ کہا: کبھی بآواز بلند پڑھتے اور کبھی دھیمی آواز سے، میں نے کہا اللہ اکبر الحمدللہ، اللہ نے اس کام میں وسعت رکھی۔( ابن ماجہ   (1354)،  وقال البانی حسن صحیح)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کبھی بلند آواز سے اور کبھی دھیمی آواز سے قراءت کرتے تھے۔( رواہ ابوداود (1328)، حسنہ البانی)

علامہ طیبی فرماتے ہیں: قرآن کو بآواز بلند پڑھنے کے جہاں فضائل آئے ہیں وہیں آہستہ پڑھنے کے بھی فضائل وارد ہیں، لہذا دونوں اقوال کے درمیان کی راہ یہ ہے کہ آہستہ پڑھنا اس شخص کے لیے افضل ہے جسے ریا اور دکھلاوے کا ڈر ہو، اور جسے ریا کا خدشہ نہ ہو تو اس کے لیے بآواز بلند پڑھنا افضل ہے، لیکن اس شرط پر کہ بلند آواز کی وجہ سے کسی نمازی یا کسی سونے والے یا کسی اور فرد کو تکلیف نہ ہو، بآواز بلند پڑھنا ایسے شخص کے لیے اس لیے افضل ہے کیونکہ نیک عمل کو علانیہ کرنا دوسروں کے لیے نفع کا باعث ہوتا ہے، یعنی بلند خوانی کی وجہ سے کوئی قراءت سنے گا، کوئی سیکھے گا یا کسی میں تلاوت کا شوق پیدا ہوگا، اسی طرح بلند آواز سے تلاوت کرنا دین کا ایک شعار بھی ہے، بلند خوانی پڑھنے والے کے دل کو جگاتی ہے، اس کے غم کو ہلکا کرتی ہے، نیند کو بھگاتی ہے، دوسرے لوگوں کو عبادت کے لیے تیار کرتی ہے، لہذا اگر کسی فرد میں ان میں سے کوئی نیت پائی جاتی ہے تو اس کے لیے بآواز بلند تلاوت کرنا افضل ہے۔( تحفۃ الاحوذی (8/191))

20- آپ ﷺ حالت جنابت کے علاوہ ہر حالت میں قرآن پڑھتے تھے:
حضرت عبداللہ بن سلمہ سے روایت ہے کہ میں اور دو لوگ حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے، انھوں نے فرمایا: آنحضرت بیت الخلاء سے نکل کر تلاوت قرآن فرماتے  اور ہمارے ساتھ تشریف فرماہوکر گوشت تناول فرماتے  اور تلاوت قرآن  فرماتے، اور حالت جنابت کے علاوہ  آپ کے لیے تلاوت قرآن میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔[1] ( یعنی جس وقت آپ ﷺ حالت جنابت میں ہوتے تو تلاوت قرآن نہیں فرماتے یہانتک کہ غسل نہ فرماتے)- (رواہ النسائی (۲۶۵) وحسنہ غیر واحد من اھل العلم منھم الحافظ ابن حجر فی الفتح (۴۸۷/۱)، وابن عبدالبر فی الاستذکار(۴۶۰/۲) والبغوی فی شرح السنہ(۳۵۹/۱))




0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔