ہفتہ، 18 اپریل، 2020

0 تبصرے

دعوت دین 25 اہم باتیں
تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (چوتھی قسط)

***

۱۲۔ داعی اپنی عبادتوں میں ممتاز ومنفرد ہو:
ایک داعی کو عبادتوں میں عام لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے نوافل اور ذکر ودعاؤں کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، داعی کو فجر کے بعد اور مغرب کے بعد خاص اذکار اور دعاؤں اور اشراق کی نماز کا اہتمام کرنا چاہیے، اور ہر روز فجر کے بعد اپنے آپ کا محاسبہ کرے۔ اسی طرح لوگوں کی نظروں سے دور روزانہ کا ورد طئے رکھے، جس میں وہ کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت، قرآنی احکام پر غوروفکر اور اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کرے، کیونکہ لوگوں کے ساتھ کثرت سے اختلاط دل کو اندھا کردیتا ہے اور ذہن کو منتشر رکھتا ہے اور بسا اوقات کثرتِ اختلاط سے دل کے سخت ہونے کا بھی خوف رہتا ہے۔ لہٰذا داعی کے لیے دن یا رات کے اوقات میں سے ایک یا چند گھنٹوں کی تنہائی ضروری ہے، وہ اس  تنہائی اور خلوت  کی گھڑی میں کسی سے نہ ملے اورنہ فون پر جڑے رہے بلکہ صرف اور صرف تلاوت، دعا واذکار اور اپنے محاسبے کا عمل کرے۔
۱۳- داعی خوش لباس وخوش مظہر ہو:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ داعی نے فقیروں اور مسکینوں کا لباس پہننا چاہیے، یا پھر داعی کو ایسا لباس پہننا چاہیے جو بہت زیادہ متواضع ہو، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اچھی چیزوں کو حلال کیا ہے اور رسول اللہﷺنے خوبصورتی اختیار کرنے کی دعوت دی ہے آپ ﷺکا ارشاد ہے:  تجملوا کأنکم شامة في عیون الناس۔( خوبصورتی اختیار کرو، اس طور پر کہ تم لوگوں کی نظروں میں بالکل مختلف دکھائی دو)۔اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: إن الله جمیل یحب الجمال(أخرجہ أبو داود 4089) ( اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے)۔
داعی کے لیے چاہیے کہ وہ خوبصورتی اختیار کرے، خوشبو لگائے، نیز اس کی مجلس بھی اتنی وسیع ہو کہ اس میں ہر قسم کے افراد کا استقبال کیا جاسکے.
۱۴۔ دنیا کو چھوٹا سمجھے اور موت کی تیاری کرے:
داعی کو چاہیے کہ وہ اس دنیا سے رخصتی کے بارے میں ہمہ وقت متفکر رہے، یہ خیال رہے کہ عنقریب اسے کوچ کرنا ہے،  لوگوں کی بھیڑ پر فخر نہ کرے اور لوگوں کے اس کی طرف کثرت سے رجوع پر غرور نہ کرے، بلکہ ارشاد باری تعالیٰ ہر وقت ذہن میں رہے:  إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَـٰنِ عَبْدًا ﴿٩٣ لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ﴿٩٤ وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا ﴿٩٥  (سورۃ مریم) ترجمہ: آسمان وزمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں.ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پوری طرح گن بھی رکھا ہے,یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں“۔
داعی کو اس بات کا علم رہے کہ تنہا ہی مرنا ہے، تنہا ہی اٹھایا جائے گا، اور ربِ تعالیٰ عنقریب یہ سوال کرے گا کہ دعوت دینے کا کیا مقصد تھا، دین کی بات کرنے کا کیا مقصد تھا؟
اسی طرح داعی کے لیے چاہیے کہ وہ دنیا کو اتنا بھی کمتر نہ سمجھے کہ زحمت ہونے لگے، بلکہ اعمال میں بہترین عمل وہ ہے جو اعتدال کے ساتھ ہو، متوسط طبقے کے لوگوں کی طرح رہائش اختیار کرے، ان ہی کی طرح پہننا اوڑھنا رکھے، لیکن اس سب کے باوجود ایک داعی کے مرتبے ومقام کو باقی رکھے۔
۱۵ –خواتین کے امور کا خیال رکھے:
داعی کے لیے چاہیے کہ وہ خواتین اور عورتوں کی دنیا سے بھی واقف رہے اور ان کے امور کا بھی خیال رکھے، اپنی بات، لیکچرس اور تقریروں میں خواتین کے امور سے غفلت نہ برتے، خواتین؛ انسانی معاشرے کا آدھا حصہ ہے، لہٰذا اس تحریر میں جو بھی باتیں بیان کی گئی ہیں ان کی مخاطب ہر مسلم خاتون بھی ہے۔
۱۶– داعی کے نزدیک محبت یا بغض میں اعتدال ہو:
داعی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی نیکی کے مطابق ان سے محبت کرے اور ان کی معصیت وبدعملی کے مطابق ان سے بغض رکھے، لیکن ایسا نہیں کہ جو نیک ہو تو اس سے صرف محبت ہی کرے اور جو گناہ گار ہو اس سے صرف بغض ہی رکھے، بلکہ ہر انسان سے اس کی نیکی کے بقدر اس سے محبت کرے اور اس کے گناہ کے بقدر اس سے بغض رکھے، کیونکہ کبھی ایک ہی شخص میں محبت وبغض جمع ہوسکتے ہیں، آپ اس سے اس لیے محبت کرسکتے ہیں کیونکہ جماعت کی نماز کا پابند ہے اور بغض اس لیے رکھیں کیونکہ وہ لوگوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص سے اس لیے محبت کریں کیونکہ وہ داڑھی کا اہتمام کرتا ہے اور اس سے بغض اس لیے کیونکہ وہ ٹخنوں کے نیچے پاجامہ لٹکاتا ہے، گویا ایک ہی شخص میں محبت وطاعت اور بغض کے عنصر جمع ہوسکتے ہیں۔ اس لیے داعی کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
۱۷–دوسروں کے عیوب کو نہ ٹٹولے:
داعی اپنا نام اونچا کرنے کی غرض سے دوسروں کی تنقید نہ کرے، بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ اپنی شہرت وعزت کے لیے دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے افراد کے سامنے جب کسی عالم دین یا داعیِ دین کا ذکر کیا جائے تو ان کی زبان سے اس عالمِ دین یا داعی ِدین کے خلاف باتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں کہ فلاں ایسے اور ایسے ہیں، میں فلاں کے نہج اور طریقے کو پسند نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے: (بعض لوگ مکھیوں کی طرح ہوتے ہیں انھیں زخم پر بیٹھنا ہی اچھا لگتا ہے۔) کیونکہ مکھی آپ کے خوشبودار سفید لباس کو چھوڑ کر آپ کے انگلی کے زخم پر بیٹھتی ہے۔
۱۸– اداروں، سوسائٹیوں اور تنظیموں وجماعتوں پر ان کے نام لے کر نکتہ چینی سے گریز کرے:
داعی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور تحریکوں کا نام لے کر نکتہ چینی اور انھیں تنقید کا نشانہ بنائے، بلکہ داعی کا کام یہ ہے کہ وہ صحیح طریقے اور منہجِ حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرے، جس سے حق پسند کو حق کا پتہ چل جائے گا اور باطل پسند کو اس کے غلطی پر ہونے کا اندازہ ہوجائے گا، اگر داعی لوگوں کے خلاف کوئی جملہ کسے، یا کسی قبیلے، ادارے، جماعت یا کمپنی کی غلطی کو اس کا نام ظاہر کرکے بیان کرے تو ہزاروں لوگ داعی کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور اس کی دعوت کو قبول کرنا تو بجا اسے دھتکاردیتے ہیں، لہٰذا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔ادبِ مفرد میں امام بخاری ؒنے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ان من أفری الفِرَی أن يهجو الشاعر القبیلة بأسرها۔  (  شاعر کا پورے قبیلے کی ایک ساتھ ہجو کرنا سب سے بڑا جھوٹ ہے)۔(أخرجہ البخاري فی الأدب المفرد رقم 126 وہو صحیح، أنظر الصحیح للألباني 2/402)


0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔