ہفتہ، 18 اپریل، 2020

0 تبصرے

دعوت دین کی  25 اہم باتیں
تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (پانچویں قسط)

***

۱۹–موضوع اور ضعیف احادیث کا سہارا نہ لے:
داعی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی موضوع اور ضعیف حدیث دلیل کے طور پر پیش کرے،، اسے یہ علم رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تمام احادیث عیوب سے پاک وصاف ہیں اور ان احادیث پر اہل علم کی نظر ہے۔ جب ہارون رشید کے پاس ایک مجرم کو قتل کے لیے لایا گیا جس نے چار ہزار جھوٹی حدیثیں گھڑی تھی، ہارون رشید نے اسے قتل کرنے کے لیے جب تلوار میان سے نکالی تو اس مجرم نے کہا آپ مجھے قتل کریں یا نہ کریں، بخدا!میں نے چار ہزار حدیثیں جھوٹی بنائی ہیں۔ ہارون رشید نے کہا: اے اللہ کے دشمن! تیرے اس کام کو ہمارے ماہرین چیلنج کرسکتے ہیں، ابن مبارک اور ابو اسحاق المروزی جیسے ہمارے علماء ان احادیث میں سے صحیح اور موضوع کو الگ الگ کردیں گے۔ ابھی تین ہی دن گذرے نہیں تھے کہ عبداللہ ابن المبارک نے اس کی تمام احادیث کو موضوع و من گھڑت قرار دے دیا۔لہٰذا اللہ کا شکر ہے کہ تمام موضوع احادیث واضح ہیں، داعی اور واعظین حضرات کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو موضوع احادیث سے آگاہ کرتے رہیں، موضوع اور ضعیف حدیثوں کو دعوت کے مفاد میں سمجھ کر بیان نہ کریں بلکہ صحیح احادیث پیش کرنا دعوت کے مفاد میں ہے۔
۲۰– تقریر،خطابت اور وعظ میں نرمی اور شفقت کا خیال رکھے:
داعی کو نرم مزاج ہونا چاہیے، رسول اللہ ﷺ کی گفتگو میں نرمی اور شفقت ہوتی تھی اور آپ کے چہرہ پر بشاشت ہوتی تھی، آپ ﷺ منکسر المزاج اور متواضع تھے، چھوٹے بڑے ہر ایک سے محبت کرتے تھے، بوڑھوں کے ساتھ ہوجاتے اور ان کی ضرورت پوری کرتے تھے، بچوں کو گود میں لیتے تھے اور اگر کوئی بیمار ہوتو اس کی عیادت کے لیے جاتے، فقیر اور کمزور لوگوں سے ملتے اوردیہاتیوں کی سختی کو برداشت فرماتے اور مہمان کا استقبال فرماتے تھے، جب آپ ﷺ کسی شخص سے مصافحہ فرماتے تو اس کا ہاتھ اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک کہ خود مصافحہ کرنے والا اپنا ہاتھ نہ چھوڑ دے، آپ ﷺ جب کسی شخص کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اس کی بات ختم ہونے تک اس سے اپنارخ نہیں موڑتے تھے، آپ ﷺ اپنے صحابہؓ کے سامنے ہمیشہ مسکراتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، آپ ﷺ کسی کے ساتھ بداخلاقی سے پیش نہیں آتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:   فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (سورۃ آل عمران.)ترجمہ:”اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے“۔
اللہ تعالی نے دنیا کے سب سے سرکش انسان کے پاس حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو بھیجا تو انھیں بھی نرمی کی نصیحت فرماتے ہوئے کہا:  فَقُولا له قَوْلاً لَیِّناً لَعَله یَتَذَکَّرُ أَوْیَخْشَی۔ترجمہ: ”اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے“۔
یقینا نرم گفتگو جادو  کی ایک جائز قسم ہے، کسی اہل علم سے پوچھا گیا کہ جائز جادو کیا ہے؟ انھوں نے کہا:لوگوں سے مسکراکر ملنا۔
لہٰذا داعی حضرات نرمی کو اختیار کریں، لوگوں کے ساتھ غصے اور سخت کلامی کا اظہار نہ کریں بلکہ لوگوں کے لیے رحمت ومہربانی کے پیغامبر بنیں، ارشاد باری تعالی ہے:  وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمة لِلْعَالَمِینَ۔( اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے)۔ یقینا آپ ﷺ رحمت ہیں، آپ ﷺ کے ماننے والے رحمت ہیں، آپ ﷺ کے شاگرد رحمت ہیں اور سچے داعی بھی رحمت ہیں۔
۲۱- اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کیا کرے:
داعی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دعوت کے کام میں مشورے کو ترجیح دے، مشورہ ان لوگوں سے لے جو اہل علم اور اہل خیر ہوں اور اپنی رائے کو تھوپنے کی کوشش نہ کرے، سورہ آل عمران میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:  وَشَاوِرْهم فِي الأَمْرِ (اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں)۔ اورسورہ شوری میں ارشاد ہے:  وَأَمْرُهم شُورَی بَینهم۔( اور ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے)۔
داعی کو چاہیے کہ وہ جس سطح پر دعوت کا کام کررہا ہوں اس سطح پر مشورے کے عمل کو انجام دے، مثال کے طور پر کمرہ جماعت میں ایک مدرس دعوت کا کام کررہا ہو تو اپنے طلبا ء کے ساتھ مشورہ کرے، اگر محلے والوں میں دعوت کا کام کررہا ہو تو محلے والوں کے ساتھ مشورہ کرے، اگر شہر میں دعوت کا کام کررہا ہو تو شہر کے بڑے لوگوں اور اہل علم واہل خیر سے مشورہ لے۔ آپ ﷺ ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں اپنے صحابہ ؓکے ساتھ مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ (أنظر فتح الباري 13/399باب رقم 28)
۲۲- لوگوں کے ساتھ اچھے معاملات کرے اور ان کے مرتبے ومقام کا لحاظ رکھے:
داعی کو چاہیے کہ وہ اہل خیر حضرات کی ستائش کرے، ان کے اچھے کام پر ان کا شکریہ ادا کرے، اگر داعی اہل خیر کی ستائش کرے گا تو انھیں اس بات کا احساس ہوگا کہ ان کی قدر ہے اور ان کے اچھے کام کو سراہا گیا، اگر اچھا کام کرنے والے کو داعی یوں ہی چھوڑ دے اور شکریہ بھی ادا کرنا گوارا نہ سمجھے تو گویا داعی نے کچھ کیا ہی نہیں۔ داعی کو چاہیے کہ وہ احسان کرنے والے اور کوئی اچھا کام کرنے والے کو کہے کہ آپ نے جو کیا بہت خوب کیا، اور برائی کرنے والے کو اس کی برائی پر ادب اور حکمت کے ساتھ تنبیہ کرے۔ اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ محبت اور عزت کے ساتھ پیش آئے، داعی کو یہ بھی علم رہے کہ معاشرے کے بڑے بزرگ لوگوں کا ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کے احترام اور عزت کا ایک حق ہے۔ اسی طرح داعی اپنے علماء، عمائدین شہر اور قبائل وقوموں کے سرداروں اور اسلامی شعراء اور مصنفین اور تاجر پیشہ افراد کا احترام کرے اور ان کے مقام ومرتبے کی قدر کرے۔ نبی کریم ﷺ منبرسے خطبے کے دوران کہا کرتے تھے:  غفر الله لعثمان ما تقدم من ذنبه وما تأخر۔ ( اللہ تعالیٰ عثمان کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کرے)۔ (أخرجہ أحمد في فضائل الصحابۃ 1/456 رقم 736 وإسنادہ ضعیف، أخرجہ الترمذي 3701 وحسنہ الألبانی فی التعلیق علی المشکاۃ 3/1713) اسی طرح آپ ﷺ حضرت عمرؓ کا شکریہ ادا فرماتے تھے اور حضرت عمر ؓکے کاموں کی تعریف کرتے تھے۔ دراصل یہ تربیت کے نبوی انداز ہیں جنھیں ہر داعی کو اپنانا چاہیے۔
۳ ۲– داعی۔زمانے کے مسائل اور نئے کلچر سے واقف رہے:
داعی کو اپنے زمانے کے مسائل اور حالات سے واقف رہنا بھی ضروری ہے، اسی طرح نئے افکار ونظریات بھی اس کے علم میں رہے، قوموں کے کلچر سے متعلق نئی کتابیں زیر مطالعہ رکھے، نئی کتابوں اور نئے افکار سے ناواقفیت کی بنیاد پر ایک داعی کس طرح لوگوں کے ساتھ دعوتی زندگی گذار سکتا ہے؟ داعی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے طرز زندگی اور ان کے مسائل سے بھی واقف رہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ داعی کو اخبارات اور میگزنس بھی پڑھنا چاہیے لیکن ان فحش رسالوں سے بچنا چاہیے جو ایمان کو کمزور کرتے ہیں، البتہ میں سمجھتا ہوں کہ ان فحش رسائل کے مقاصد اور ان کے علاج کو سمجھنے کے لیے ایک داعی کو فحش رسائل سے بھی باخبر رہنا چاہیے۔
عرفت الشر لا للشرَّ لکن لتلافيه
ومن لا یعرف الشر جدیر أن یقع فيه
(میں نے برائی سے بچنے کے لیے برائی کو سمجھا، جو برائی کو ہی نہ سمجھے اس کے اس برائی میں ملوث ہونے کا زیادہ امکان ہے)۔ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:  ”جو شخص جاہلیت کو نہ سمجھے وہ اسلام کو سمجھ نہیں سکتا“۔
اس لیے داعی کے لیے قوموں کی ثقافتوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔
۲۴  –لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب ہو:
داعی کو فن ِخطابت میں ماہر ہونا چاہیے، وہ لوگوں سے ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق مخاطب ہو، اگر دیہاتی معاشرے میں جائے تو گاؤں اور دیہات کے مسائل اور طرز زندگی کے مطابق ان سے مخاطب ہو، جب طلبا ء کے درمیان جائے تو ان کی ثقافت، طرزِ زندگی اور سوچ کے مطابق ان سے مخاطب ہو، اور جب درمیانی سطح کے لوگوں سے ملاقات ہو تو ان کی سطح پر اتر کر ان سے دین کی بات کرے۔
۲۵–لوگوں کو فائدہ پہنچا کر دلوں کو جوڑنے کا کام کرے:
داعی کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو فائدہ پہنچاکر لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا کام کرے، داعی کا کام صرف لوگوں کے ساتھ دینی بات کرنا، وعظ کرنا اور تقریر کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لوگوں کو کبھی کبھار تحفے تحائف دے کر اور کبھی ان کی زیارت کرکے دلوں کو جوڑنے کا کام کرے، کبھی کھانے پر بھی بلایا کرے، رسول اللہ ﷺ لوگوں کو اپنے گھر کھانے کی دعوت بھی دیا کرتے تھے، انھیں ہدیے اور تحفے بھی دیا کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ آپﷺ نے ایک شخص کو سو اونٹ عطا کیے۔ بسا اوقات آپﷺ کسی انسان سے گلے ملتے اور اسے اپنی جگہ بٹھادیتے۔ دراصل یہ طریقے ہیں دلوں کو جوڑنے کے۔
اسی طرح داعی کو لوگوں کے دلوں کواللہ کے لیے جوڑنے کے مقصد سے سوشل ورکر بھی ہونا چاہیے، لوگوں کی خوشی اور غم کے موقعوں پر ان کی زیارت کرے، اگر کوئی مریض ہوتو عیادت کرے، اگر کسی کے گھر شادی یا کسی اور خوشی کا موقع ہو تو وہاں پہنچے اور نہ صرف مبارکباد دے بلکہ ان کے کاموں میں مدد بھی کرے اور ان کے مہمانوں کے استقبال کے لیے پیش پیش رہے۔
لوگوں سے کٹے رہنا داعی کا مزاج نہیں ہونا چاہیے، داعی ایک ریفارمر اور مصلح ہوتا ہے، بخاری شریف میں یہ حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن ظہر کی نماز میں تاخیر سے پہنچے، آپ کی تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ آپ قبیلے عمر بن عوف کے ایک مسئلے کو حل کرنے اور ان کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ آپ ﷺ کو جب کسی مریض کے بارے میں علم ہوتا تو آپ اگر وہ مریض مدینہ کے مضافات میں ہی مقیم کیوں نہ ہو اپنے صحابہ کے ساتھ اس کی عیادت کے لیے پہنچ جایا کرتے تھے۔
الغرض دعوتِ دین کے مقصد سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے یہ طریقے سب سے زیادہ مفید ہیں۔
***


0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔