ہفتہ، 18 اپریل، 2020

0 تبصرے


دعوت دین 25 اہم باتیں
تحریر: ڈاکٹر عائض القرنی
ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی
 (دوسری قسط)

***
۵اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں:
اگر کوئی نوجوان اپنی پریشانی داعی کے سامنے رکھے یا وہ گناہ میں اپنے ملوث ہونے کی خبر دے تو داعی کو ایسے موقع پر غصہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، نبی کریم کے پاس ایک شخص کو لایا گیا، اس نے بچاس سے زیادہ مرتبہ شراب پی رکھی تھی، وہ شخص صحابہ میں سے تھا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب اس شخص کو سزا کے لیے لایا گیا، تو حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا:”اللہ اس پر لعنت کرے، کتنی مرتبہ کہا جاچکا ہے“، آنحضور نے فرمایا کہ ان پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم! میں نے اس کے متعلق یہی جانا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ أخرجہ البخاري (12/75 رقم: 6781/6780) دیکھیے پیارے نبی کا کتنا خوب اور اچھا اندازِ دعوت ہے۔
اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ لوگوں سے مایوس مت ہونا، چاہے وہ گناہوں میں کتنے ہی ڈوبے ہوئے کیوں نہ ہوں، انھیں اس اُمت کی امید سمجھیں،امید اس بات کی کہ کسی دن توبہ کا دروازہ ان کے لیے کھل جائے اور پھر آپ انھیں توبہ کرنے والے سچے، مخلص، اور ہمیشہ باوضو رہنے والے لوگوں میں پاؤ۔
لوگوں کی جانب سے دعوت کو قبول نہ کرنے پر داعی نا امید نہ ہو، بلکہ اس پر صبر کرے، جمے رہے اور سجدوں میں ان کے لیے ہدایت اور توفیق مانگے، اس کام کو قبول نہ کرنے کی صورت میں جلدبازی نہ کرے، ہمارے پیارے نبی مکہ مکرمہ میں ۱۳برس تک صرف ”لا الہ الا اللہ“ کی دعوت دیتے رہے، اور اس اثناء آپ سخت تکلیفوں اور لوگوں کی گالی گلوج سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔
یاد رکھیے! دعوت کے راستے میں جو تکلیفیں، پریشانیاں اور آزمائشیں جناب رسول اللہ کو پہنچی ہیں، دنیا کے تمام داعیوں کی تکلیف اور آزمائشیں آپ کی صعوبتوں اور آزمائشوں کے مقابلے کچھ بھی نہیں ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ نے صبر کیا اور کبھی غصہ نہیں ہوئے، حتی کہ ایک وقت آپ کے پاس پہاڑوں پر مامور فرشتہ آگیا اور کہنے لگا: او محمد! ربِ ذوالجلال نے آپ کے قوم کی اس بات کو سن لیا جو انھوں نے آپ سے کی ہیں، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے آپ کی جانب مجھے بھیجا ہے تاکہ آپ کا حکم بجا لاؤں، بولیے کیا چاہتے ہو؟ اگر آپ چاہیں (حکم دیں) تو میں اخشبین کو ان پر ملادوں (مکہ والوں پر مکہ کے دونوں طرف جو پہاڑ ہیں ان دونوں کو ملادوں کہ وہ سب چکنا چور ہوجائیں)، نبی کریم نے فرمایا نہیں،(ایسا مت کرو) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ رواہ مسلم (3 / 1420 رقم 1795)
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی نسل سے اسلام کے بڑے بڑے سپہ سالار نکالے جنھوں نے اسلام کے پرچم کو سربلند کیا، ولید بن مغیرہ کے خاندان میں خالد بن الولیدؓ، اور ابوجہل کے خاندان میں عکرمہؓ بن ابوجہل جیسے افراد کوپیدا کیا۔
مایوس نہ ہونا داعی کی سب سے بڑی خوبی ہے، داعی کے ذہن میں ہر وقت یہ بات رہے کہ نافرمان بندہ کسی نہ کسی وقت کسی مسجد کا امام، خطیب یا کوئی بڑا عالم دین بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے داعی مایوس نہ ہو، اللہ تعالیٰ رحمنٰ ورحیم ہے، حدیث قدسی میں ہے، یہ حدیث امام احمد اور ترمذی نے سندِصحیح سے نقل کی ہے:  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (اے آدم کے بیٹے! تو مجھ سے جو بھی دعا کرے اور جو بھی امید لگائے میں معاف کردیتا ہوں، اگر تیرے گناہ آسمان تک بھی پہنچ جائے پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تومیں تجھے بخش دوں گا، اور مجھے کوئی پرواہ نہیں، اے آدم کی اولاد! اگر تو میرے پاس زمین بھر خطاؤں کے ساتھ آئے پھر تو مجھ سے ملاقات کرے اس حال میں کہ تونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا، تو میں تیرے پاس زمین بھر کر مغفرت کے ساتھ ضرور آؤں گا. أخرجہ الترمذي (3540)
لوگوں کی خطاؤں، غلطیوں اور گناہوں سے داعی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ داعی کی یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کے افراد کے ساتھ اپنا اٹھنا بیٹھنا جاری رکھے، بڑے چھوٹے، نیک وبد، فرماں بردار اور نافرمان تمام قسم کے لوگوں سے میل جول رکھے، یہ ذہن میں رہے کہ یہی گناہ گار کسی دن بڑا داعی بن جائے، اللہ تعالیٰ کا ولی بن جائے، مایوسی کو قریب بھی نہ آنے دیں، بلکہ نافرمان بندے کو آہستہ آہستہ نیکیوں کی جانب راغب کرے، اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے رفتہ رفتہ دین سے قریب کرے اور اس کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اسے برداشت کرے۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ ثقیف کا ایک وفد آیا، آپ ﷺ نے انھیں دین کی دعوت دی، انھوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اللہ کے ایک ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دے دی لیکن نماز کے سلسلے میں کہا ہم نماز نہیں پڑھیں گے، زکوۃ نہیں دیں گے اور راہ ِخدا میں جہاد بھی نہیں کریں گے،تو رسول اللہ ﷺ نے کہا: جہاں تک نماز کی بات ہے تو ایسا دین کیا کام کا جس میں نماز نہ ہو، اور رہا صدقہ وزکوۃ تو اسلام لانے کے بعد وہ عنقریب صدقہ بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔(ابوداؤد)۔جب وہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان کو اتار دیا، لہٰذا انھوں نے نماز پڑھی، زکوۃ دی اور جہاد کیا، ان ہی میں سے بعض نہر سیحون اور جیحوں کے اُس پار راہِ خدا میں شہید ہوئے اور بعض قندھار کی سرزمین میں۔
لہٰذا اللہ تعالی ٰ کے راستے کی دعوت دینے میں کسی انسان کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ داعی کو یہ  امید  رکھنا ہوگا کہ جنھیں دعوت دی جارہی ہے وہ ہدایت پانے کے کئی مراحل میں سے کسی مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور عنقریب انھیں ہدایت نصیب ہوگی۔آپ کسی شرابی، کبابی اور چوری کرنے والے حتی کہ کسی قاتل سے بھی نا امید مت ہوئیے کہ وہ توبہ نہیں کرے گا، بلکہ ان کے لیے ہدایت چاہیے اور انھیں یہ کہتے رہیے کہ ایک پروردگار ہے جو بڑا رحم کرنے والا ہے، وہ رب بندوں کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، سورہ آل عمران کی یہ آیت یاد رکھیے:  وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ۔ ترجمہ: جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے“۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ”حکیم وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا اور نہ انھیں اللہ تعالیٰ کی معصیت میں مبتلا کرتا ہے“۔
 اسی طرح داعی کا کام ہے کہ وہ لوگوں کی نافرمانیوں اور گناہوں کو معمولی نہ سمجھے بلکہ ان میں خوفِ خدا پیدا کرے، اور ایسے لوگوں کو اس طور پر دعوت دے کہ ان میں نہ بہت زیادہ ڈر اور خوف پیدا کرے اور نہ بہت زیادہ امیدیں دلائے کہ وہ امیدوں کے سہارے گناہ کرتے جائیں۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کرکے ان کی اصلاح کرے۔ بعض داعی حضرات لوگوں کے بداعمالیوں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں اور جب بھی کوئی شخص کوئی گناہِ کبیرہ کر بیٹھتا ہے تو اسے کوئی بات نہیں  کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
داعی کے ذہن میں یہ بات ہر وقت تازہ رہنا چاہیے کہ جب بھی کوئی شخص شرعی حدود سے آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالی ٰکو غصہ آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ کوئی شخص حرام چیزوں کا ارتکاب کرے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے: سعد بن عبادہ ؓ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اس کی گردن ماردوں،پھر یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے،بلاشبہ میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ نے غیرت ہی کی وجہ سے فواحش کو حرام کیا ہے۔ أخرجہ البخاري (13/399 رقم 7416) ومسلم (2 / 1136 رقم 1499)
۶- لوگوں اور شخصیات پر ان کے ناموں کو بیان کرکے حملہ نہ کرے:
داعی کو چاہیے کہ وہ شخصیات پر ان کے نام بیان کرکے حملے نہ کرے، لوگوں کے سامنے منبر سے ان کی حقارت نہ کرے، بلکہ داعی کو چاہیے کہ پیارے نبی ﷺکے طریقے کو اپنائے آپ جب کسی شخص کو اس کی غلطی سے آگاہ کرنا ہوتو فرماتے تھے:  ما بال أقوام یفعلون کذا وکذا (ان قوموں اور افراد کا کیا کہنا جو ایسا ایسا کرتے)آپ ﷺکے اس انداز سے غلطی والا اپنی غلطی کو سمجھ لیتا تھا، آپ ﷺ اس کی غلطی کی تشہیر نہیں فرماتے تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی فرد اپنی تصانیف، انحرافات، اپنے ادب اوردعوت کے ذریعے بدعت وانحرافات کی علانیہ تشہیر کرے تو اہل علم کے نزدیک اس کی تشہیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، علماء نے جہم بن صفوان کے خلاف کھلا مورچا کھول رکھا تھا، ابن مبارک نے جہم کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا: یہ وہ مجرم ہے جو گمراہی کی جانب امت کی قیادت کررہاہے اور دین میں نئی نئی چیزیں پیدا کررکھی ہے۔ آگے کہا: مجھے ایسے دجال پر بڑا تعجب ہے جس نے لوگوں کو جہنم کی دعوت دی ہے اور جہنم سے ہی اپنے نام کو نکالا ہے، وہ علماء کے درمیان جعد بن درہم نام سے بھی مشہور ہے، بلکہ علماء کرام نے احادیث کی کتابوں میں اس طرح کے افراد کے خطرات سے بچنے کے لیے ان کے نام بھی لکھ دیئے ہیں۔ اور لوگوں کو عام وخاص محفلوں میں ان سے متنبہ کیا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے افراد کی غلطیوں کو علانیہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو بھلائی چاہتے ہیں لیکن ان سے غلطی سرزد ہوجاتی ہے یا پھر وہ لوگ جنھوں نے زندگی کے کسی مرحلے میں غلطی کی تھی تو اس طرح کے افراد کے ناموں کو بھی سیاہ فہرست میں شامل کرنےکا عمل دراصل انھیں بغاوت کی جانب ڈھکیلتا ہے اور کبھی کبھی عزت وناموس انھیں گناہ پر بھی آمادہ کردیتی ہے۔
۷- داعی کو لوگوں کے درمیان اپنی پاکیزگی آپ بیان کرنے سے بچنا چاہیے:
 داعی کو ہر کام میں اپنے آپ کو ناقص تصور کرنا چاہیے، اسے اس بات پر خدائے تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنے کام کا ترجمان بنایا، رسول اللہ ﷺ کا قاصد بنایا، داعی کو ان نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے نہ کہ اپنی پاکیزگی اور دعوتی کام سے اپنی نسبت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان اپنے آپ کو بلند وبرتر سمجھنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا ۔ (اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا)۔ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:  إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ ﴿١ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًا ﴿٢ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿٣  ۔ اہل علم ان آیتوں کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دعوت کے کام کی تکمیل کے بعد آپ ﷺ کو استغفار کا حکم دیا ہے۔
خدائے تعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے کہ داعی کو اپنی پاکی وصفائی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹنا چاہیے، اسے یہ کہنے کا حق نہیں کہ: ”میں تمہیں حکم دیتا ہوں اور تم میری نافرمانی کرتے ہو“، ”میں تمہیں منع کرتا ہوں اور تم میری اتباع نہیں کرتے“۔ ”میں ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ امت اپنے رب کی کب تک معصیت کرتی رہے گی؟“وغیرہ۔ اس طرح کے جملے کسی داعی کو زیب نہیں دیتے ہیں۔ اس طرح کے جملوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ داعی خود ان تمام گناہوں اور نافرمانیوں سے پاک وصاف ہے، دراصل یہ تو داعی کی غلطی ہے۔ بلکہ داعی کو لوگوں سے جب مخاطب ہوتو اس طرح کہنا چاہیے: ہم سب سے یہ غلطی ہوئی، ہم سب نے غلطی کی، ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں، کیونکہ سامعین کے درمیان بسا اوقات کوئی شخص داعی سے زیادہ پرہیزگار اور اس داعی سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والا ہوسکتا ہے۔

0 تبصرے:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔