از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی
قارئین!
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ فُتُور کے معنی عربی لغت میں دو طرح سے بیان کیے گئے
ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی سرگرم اور متحرک چیز کا اچانک رک جانا یا پھر کسی تیز رفتار
چیز کا سست پڑ جانا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ چستی اور محنت کے بعد سُستی اور کاہلی کا
غالب آجانا۔ لسان العرب میں یہ بھی لکھا ہے کہ: "کسی چیز کا فاتر ہو جانا، یا
اس کا جوش اور گرمی ٹھنڈی پڑجانا، اس کی تیزی کے بعد سست پڑ جانا اور اس کی شدت کے
بعد نرم پڑ جانا ۔"
اصطلاحی
معنوں میں فُتُور ایک ایسی بیماری ہے جو ہر اُس انسان کو لگ سکتی ہے جو محنت اور
کوشش میں لگا ہو۔ اس کا کم ترین درجہ محض کاہلی اور سستی ہے، لیکن اس کی انتہا یہ
ہے کہ انسان محنت اور لگن کے بعد بالکل ہی رک جائے اور سُست پڑ جائے۔ اللہ رب
العزت نے فرشتوں کے بارے میں فرمایا:
(وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ
لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ)
ترجمہ:
آسمانوں اور زمین میں جو ہے اسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس ہیں وه اس کی عبادت
سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں (الانبیاء: 19-20)
یعنی
یہ کہ وہ مسلسل عبادت میں رہتے ہیں، ہر اس چیز سے اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو
اس کے شایانِ شان نہیں ہے، اور وہ دن رات اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اور نہ ہی کمزور
پڑتے ہیں اور نہ ہی اکتاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
فُتُور
کی وجوہات:
یہ
فُتُور کی بیماری انسان کے دل میں کئی اسباب کی بنا پر گھر کر لیتی ہے، جن میں سے
چند یہ ہیں:
1- دین میں غلو اور حد سے زیادہ سختی:
جب
انسان عبادت میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اپنے بدن کو اس کا حق نہیں دیتا، اسے آرام
اور جائز لذتوں سے محروم کر دیتا ہے تو اس کا نتیجہ کمزوری، اکتاہٹ اور بیزاری کی
صورت میں نکلتا ہے۔ نتیجتاً وہ کام چھوڑ دیتا ہے اور بسا اوقات تو اس راہ کے بالکل
برعکس چل پڑتا ہے۔ وہ شخص جو افراط میں مبتلا تھا، اب تفریط کی طرف مائل ہو جاتا
ہے۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ انسان کی طاقت محدود ہے اور جب وہ اپنی حد سے تجاوز
کرتا ہے تو اسے تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے، جس سے سستی اور رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ شاید یہی
وجہ ہے کہ اسلام نے غلو سے سختی سے منع کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نے فرمایا:
"دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کی وجہ سے
ہلاک ہو گئے۔"
ایک اور جگہ آپ نے فرمایا :
(هلك المتنطعون) "ہلاک
ہوئے حد سے بڑھنے والے۔"
یہ
الفاظ آپ نے تین مرتبہ دہرائے، جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اقوال اور افعال میں
حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں فرمایا:
"اپنے اوپر سختی نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر سختی مسلط کر دی
جائے، کیونکہ ایک قوم نے اپنے اوپر سختی کی تو ان پر سختی کر دی گئی، (رهبانية
ابتدعوها ما كتبناها عليهم) یہ ایسی رہبانیت ہے جو انہوں نے خود ایجاد کی،
ہم نے ان پر اسے فرض نہیں کیا تھا۔
2- جائز أمور یعنی مباحات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا:
مباح
چیزوں میں ضرورت سے زیادہ مشغولیت انسان کے جسم کو فربہ اور بے ڈول کر دیتی ہے،
اور شہوات اس پر غالب آجاتی ہیں۔ اس سے انسان پر سُستی اور کاہلی چھا جاتی ہے، اور
بعض اوقات تو وہ بالکل ہی رک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم نے اسراف سے منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: " اے
آدم کی اولاد! ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اختیار کرو، اور کھاؤ اور پیو اور اسراف
نہ کرو، بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ " (الاعراف: 31) نبی
کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ما ملأ ابن آدم وعاء شر من بطنه...):
"ابن آدم نے اپنے پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں بھرا۔"
3-
جماعت کو چھوڑ کر تنہائی اختیار کرنا
یہ
حقیقت ہے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے، اس میں کئی مراحل اور رکاوٹیں ہیں جن کے لیے
تجدیدِ عمل کی ضرورت ہے۔ جب مسلمان ایک جماعت کے ساتھ سفر کرتا ہے تو وہ ہمیشہ
اپنے آپ کو تازہ دم اور مضبوط ارادوں والا پاتا ہے۔ اس کے عزائم پختہ ہوتے ہیں اور
وہ خود کو یاددہانی کرواتا رہتا ہے، لیکن جب وہ جماعت کو چھوڑ دیتا ہے اور تنہائی
کو پسند کرتا ہے تو وہ اس شخص سے محروم ہو جاتا ہے جو اس کی سُستی کو دور کرے اور
اس کے ارادوں کو مضبوط بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جماعت کے ساتھ رہنے کی تاکید
کی ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ
و آلہ وسلم نے فرمایا: "شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا
ہے۔" حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: "جماعت کی کدورت فرد کی صفائی سے
بہتر ہے۔"
4- موت اور آخرت کو کم یاد کرنا
موت
اور آخرت کو کم یاد کرنے سے بھی ارادہ کمزور پڑتا ہے، عزائم سست پڑ جاتے ہیں اور
عمل میں سُستی آجاتی ہے، حتیٰ کہ انسان بالکل ہی رک جاتا ہے۔ شاید اسی لیے نبی
کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبروں کی زیارت کا حکم دیا، حالانکہ پہلے منع
کیا تھا، جب آپ نے فرمایا: إني نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها فإن فيها عبرة)
وفي رواية: (كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروا القبور، فإنها تزهد في الدنيا
وتذكر الآخرة (میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب ان کی زیارت کرو،
کیونکہ ان میں عبرت ہے۔
5- روزانہ کے معمولات میں کمی کرنا
فرائض
اور سنن میں کوتاہی، مثلاً عشاء کے بعد رات گئے بے جا گپ شپ کی وجہ سے نماز کا قضا
ہو جانا، رات کی نماز اور چاشت کی نماز کو چھوڑ دینا، قرآن کی تلاوت، ذکر، دعا، یا
استغفار میں سستی، یا بغیر عذر کے مسجد نہ جانا، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کا نتیجہ
فُتُور کی صورت میں نکلتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
"شیطان تمہارے سر کے پچھلے حصے پر تین گرہیں لگا دیتا ہے جب تم سوتے ہو، اور
ہر گرہ پر کہتا ہے: 'تم پر رات لمبی ہے، سو جاؤ۔' اگر تم جاگ کر اللہ کا ذکر کرتے
ہو تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، اگر وضو کرتے ہو تو دوسری کھل جاتی ہے، اور اگر نماز
پڑھتے ہو تو تیسری بھی کھل جاتی ہے۔"
(يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاث عقد: يضرب كل
عقدة، عليك ليل طويل فارقد، فإن استيقظ وذكر الله انحلت عقدة، وإن توضأ انحلت
عقدة، فإن صلى انحلت عقدة، فأصبح نشيطاً طيب النفس، وإلا أصبح خبيث النفس كسلان)
6- حرام یا مشتبہ چیز کھانا
جب
انسان کے پیٹ میں حرام یا مشتبہ چیز داخل ہو جاتی ہے تو اس کا سب سے کم ترین بدلہ
یہ ہوتا ہے کہ وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر عبادات سے دور ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ اسلام نے حلال رزق کمانے اور مشتبہ چیزوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔ نبی
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا ہو، آگ
ہی اس کے لیے بہتر ہے۔
(كل جسد نبت من سحت - أي من حرام - فالنار أولى به)
7- دین کے صرف ایک پہلو پر توجہ دینا
جب
کوئی شخص دین کے صرف ایک پہلو پر توجہ مرکوز کرتا ہے، مثلاً صرف عقائد پر، یا صرف
عبادات پر، یا صرف اخلاقیات پر، تو ایسے لوگ بھی ایک وقت آتا ہے کہ فُتُور کا شکار
ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ دینِ اسلام پوری زندگی کے لیے ہے، اور جب کوئی صرف ایک جزو پر
عمل کرتا ہے تو گویا وہ پوری زندگی کے بجائے صرف زندگی کے ایک حصے کو جینا چاہتا
ہے۔ پھر جب وہ اس حصے میں کمال حاصل کر لیتا ہے تو سوال اٹھتا ہے: اب کیا؟ اور
جواب صرف فُتُور کی صورت میں آتا ہے، چاہے وہ بے بسی کی وجہ سے ہو یا کاہلی کی وجہ
سے۔
8- کائنات اور انسانی زندگی میں اللہ کی سنتوں پر غور نہ کرنا:
کچھ
لوگ ایسے ہوتے ہیں جو راتوں رات پورے معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں، ان کی سوچ، اخلاق
اور نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ
ہر کام میں تدریج ضروری ہے۔ جب ان کے ارادوں کے مطابق نتائج نہیں نکلتے تو وہ
سُستی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بعض اوقات تو کام چھوڑ کر بالکل علیحدہ
ہو جاتے ہیں۔
9- بدن کے حق میں کمی کرنا
کچھ
محنتی لوگ اپنے آپ کو اتنا مصروف رکھتے ہیں کہ اپنے بدن کو آرام کا وقت نہیں دیتے۔
ایسے لوگ بھی بالآخر فُتُور کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
فرمایا: "تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے
گھر والوں کا تم پر حق ہے، لہٰذا ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔
(إن لربك عليك حقاً، وإن لنفسك عليك حقاً ولأهلك عليك حقاً
فأعط كل ذي حق حقه " وفي رواية أخرى: " فإن لجسدك عليك حقاً، وإن لعينك
عليك حقاً، وإن لزوجك عليك حقاً، وإن لزويك عليك حقاً ")
10- راستے کی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کی تیاری نہ کرنا:
جب
کوئی شخص کسی راہ پر چلتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ راستے کی رکاوٹوں کا علم
رکھے، تاکہ ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ جب کوئی بغیر تیاری کے چل پڑتا ہے
اور اسے رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، مثلاً بیوی، اولاد، دولت یا کسی آزمائش کی وجہ
سے، تو وہ ان کا مقابلہ نہیں کر پاتا اور سستی کا شکار ہو جاتا ہے۔
11- کمزور ارادوں اور پست ہمت لوگوں کی صحبت اختیار کرنا:
ایک
محنتی انسان جب کمزور ارادوں والے لوگوں کی صحبت میں رہتا ہے تو ان کی سستی اور
کاہلی اسے بھی متاثر کرتی ہے، اور وہ ان کے جیسا ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم نے فرمایا: "انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر
ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔
12- کام میں بے نظمی اور بے ترتیبی:
بہت
سے محنتی لوگ اپنے کاموں میں بے نظمی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ اہم اور بنیادی کاموں
کو چھوڑ کر غیر اہم اور معمولی کاموں میں الجھے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے
کہ راستہ طویل ہو جاتا ہے اور قربانیاں بڑھ جاتی ہیں، جس سے اکثر فُتُور غالب آ
جاتا ہے۔
13- گناہوں کا ارتکاب:
گناہ،
خاص طور پر چھوٹے گناہ جنہیں انسان معمولی سمجھتا ہے، انسان کو فُتُور میں مبتلا
کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ
أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ (الشوریٰ: 30)
تمہیں
جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وه تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کابدلہ ہے، اور وه تو
بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے
فُتُور
کا علاج:
جب
فُتُور اتنی تباہ کن بیماری ہے تو اس سے بچنا اور اس کا علاج کرنا ضروری ہے۔ اس کا
علاج ان طریقوں سے کیا جاسکتا ہے:
1- گناہوں سے دوری اختیار
کرنا
گناہ
دلوں کو جلا دیتے ہیں اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ جس پر اللہ کا غضب نازل
ہو، وہ واضح طور پر خسارے میں ہے۔
2- روزانہ
کے معمولات کی پابندی
ذکر،
دعا، استغفار، قرآن کی تلاوت، چاشت کی نماز، رات کی نماز اور خاص طور پر سحری کے
وقت کی مناجات دلوں میں ایمان کو تازہ کرتی ہیں، ہمتوں کو بلند کرتی ہیں اور ارادوں
کو مضبوط بناتی ہیں۔
3- فضیلت والے اوقات کا
درست استعمال:
فُتُور
سے بچنے اور ہمت کو بڑھانے کے لیے ان اوقات میں عمل کرنا چاہیے جو فضیلت والے ہیں
جیسے جمعہ کے دن کی مخصوص ساعتیں اور پیر اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام۔
4- غلو اور سختی سے آزادی
دین
میں سختی اور غلو سے پرہیز کرنا کاموں کو ثابت قدمی سے مسلسل جاری رکھنے میں مدد
کرتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے
فرمایا: اے لوگو! ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ تم (عمل کرنے سے)
اکتا جاؤ۔ اور اللہ کو دین کا وہی عمل زیادہ پسند ہے، جس کا کرنے والے اسے ہمیشہ
کرے۔
(يا أيها الناس عليكم من الأعمال ما تطيقون، فإن الله لا يمل حتى
تملوا، وإن أحب الأعمال إلى الله ما دووم عليه وإن قل)
5- جماعت کے ساتھ رہنا:
جماعت
کی آغوش میں اپنے آپ کو رکھنا اور اس سے کبھی جدا نہ ہونا فُتُور سے بچنے کا ایک
بہترین طریقہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "جماعت رحمت ہے
اور تفرقہ عذاب ہے۔
(الجماعة رحمة و الفرقة عذاب اور ایک جگہ فرمایا: يد الله مع الجماعة)
6- کائنات اور انسانوں میں
اللہ کی سنتوں کو سمجھنا
یہ
سمجھنا ضروری ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اور ہر کام میں تدریج ضروری ہے۔
7- راستے
کی رکاوٹوں کا پہلے ہی علم حاصل کرنا
کام
شروع کرنے سے پہلے ہی راستے کی رکاوٹوں کا علم حاصل کر لینا چاہیے، تاکہ ان کا
سامنا کرنے کی تیاری ہو۔
8- کام میں درستگی اور
منصوبہ بندی
کام
کو منصوبہ بندی کے ساتھ کرنا چاہیے اور اہم امور کو ترجیح دینی چاہیے۔
9- صالح اور محنتی لوگوں
کی صحبت اختیار کرنا
صالحین
کی صحبت دلوں کو زندگی بخشتی ہے، اور ان کی روحانیت انسان کی ہمتوں کو مضبوط کرتی
ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں بہترین لوگوں کے
بارے میں نہ بتاؤں؟" انہوں نے کہا: "کیوں نہیں، یا رسول اللہ۔" آپ
نے فرمایا: "جنہیں دیکھ کر تمہیں اللہ یاد آجائے۔"
10- بدن کو اس کا حق دینا
اپنے
جسم کو آرام اور معتدل خوراک دینا ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی قوت اور چستی واپس حاصل
کر سکے۔
11- مباحات یعنی جائز امور کے
ذریعے دل بہلانا
اہل و
عیال کے ساتھ دل لگی، بچوں کے ساتھ کھیلنا، اور سیر وتفریح وغیرہ سے بیزاری اور
اکتاہٹ ختم ہوتی ہے، جس سے انسان نئی چستی کے ساتھ کام میں واپس آتا ہے۔ نبی صلی
اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "اے حنظلہ! ایک لمحہ ہوتا ہے اور دوسرا لمحہ
بھی ہوتا ہے۔" (یعنی کام اور آرام دونوں ضروری ہیں)۔
12- سیرت اور تاریخ کا مطالعہ
سیرت
اور تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں مجاہدوں کی داستانیں ہوتی ہیں جو
انسان کی ہمتوں کو بیدار کرتی ہیں اور اس میں پیروی کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔
13- موت اور آخرت کو یاد کرنا
موت
اور آخرت کو یاد کرنا نفس کو بیدار کرتا ہے اور غفلت سے نکالتا ہے۔ نبی صلی اللہ
علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ اس میں عبرت ہے۔"
14- جنت اور جہنم کو یاد کرنا
جنت
کے انعامات اور جہنم کے عذاب کو یاد کرنے سے نیند اُڑ جاتی ہے اور سست ہمتیں بیدار
ہوتی ہیں۔
15- علم کی محفلوں میں شرکت کرنا
علم
دلوں کی زندگی ہے، اور ایک سچے عالم کی ایک بات بھی انسان کو سالوں تک متحرک رکھ
سکتی ہے۔
16- دین کو مکمل طور پر اختیار
کرنا
دین
کو مکمل طور پر اپنانے سے ہی استقامت اور دوام حاصل ہوتا ہے۔
17- نفس کا محاسبہ کرنا
اپنے
نفس کا مستقل محاسبہ کرنے سے انسان اپنی خامیوں کو ابتدا ہی میں دیکھ لیتا ہے اور
ان کا علاج کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ
اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے
ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے
اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیره) بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ
تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے ( الحشر: 18)