پیر، 20 اکتوبر، 2025

کوریائی داعی عبداللہ بارک کی مجلہ  المجتمع سے گفتگو

جنوبی کوریا میں اسلام کے پھیلاؤ کی داستان کویت سے شروع ہوئی، تقریباً چالیس سال پہلے، یعنی 1982ء میں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی سال کویت کے وزیر اوقاف کے پاس ایک جنوبی کوریا کے وزیر آئے اور کویتی حکام سے کہا:

"ہمارے ہاں ہر مذہب کے مبلغ موجود ہیں، لیکن آپ کے مذہب کے لیے کوئی مبلغ نہیں ہے۔ کیوں نہ آپ آ کر اسلام پھیلائیں؟"

اس پر کویتی وزیر نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا: "آپ میں سے کون اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے؟"

 اس وقت وہاں موجود تھے علامہ ابوالحسن علی ندوی کے شاگرد خاص  ڈاکٹر عبدالوہاب زاہد ندوی، جن کا تعلق شام کے شہر حلب سے تھا، وہ  فوراً بولے: "میں تیار ہوں۔" یوں وہ 1984ء سے لے کر اپنی وفات تک جولائی 2025ء تک جنوبی کوریا میں اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہے اور وہاں کے مسلمانوں کے مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے۔

ان کی محنت کے ثمرات جلد ظاہر ہوئے۔ آج جنوبی کوریا میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے، جبکہ ملک کی کل آبادی تقریباً 50 ملین ہے۔ ان میں معروف کوریائی داعی عبداللہ پارک بھی شامل ہیں، جنہوں نے کتاب "حصن المسلم" کو کوریائی زبان میں ترجمہ کیا اور بیس صحابہ کی زندگی پر مشتمل بیس ویڈیوز تیار کیے۔

کویتی میگزن المجتمع کے ساتھ گفتگو میں عبد اللہ پارک نے وہاں کے مسلمانوں کی صورتحال، خاص طور پر نوجوانوں کی مشکلات اور اسلام اختیار کرنے میں درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی۔

عبد اللہ پارک نے بتایا:

"میں جنوبی کوریا میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا۔ ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد میں نے سچائی کی تلاش میں مختلف مذہبی اور فلسفیانہ کتب پڑھنا شروع کیں ۔ طویل تحقیق اور غور و فکر کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو میرے سوالات کا صاف جواب دیتا ہے: خالص توحید، انسان کی تخلیق کا مقصد، اور بغیر کسی واسطے کے خدا سے براہ راست رابطہ ۔ جیسے  بنیادی اعمال  سمیت قرآن مجید اور حضرت محمد اور صحابہ کی زندگی نے نے سب سے زیادہ مجھے متاثر کیا ۔

تاہم، یہ سفر آسان نہیں تھا۔ "ابتداء میں کچھ خاندان کے افراد اور معاشرتی روایات نے مخالفت کی، مگر صبر اور دعا سے اللہ نے میرے لیے راہیں ہموار کر دیں اور میرا ایمان مضبوط کیا۔"

انہوں نے کہا: "اسلام اختیار کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے لوگوں کی خدمت کروں۔ میں نے حصن المسلم کا ترجمہ کوریائی میں کیا تاکہ نئے مسلمان اسے بطور علمی مرجع استعمال کرسکیں۔ پھر میں نے بیس ویڈیوز تیار کیں، جن میں صحابہ کی سادہ اور دلچسپ کہانیاں پیش کی گئیں۔"

پارک نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنی ترجمہ اور میڈیا کی مہارت استعمال کر کے اسلامی تاریخ کو موجودہ کوریائی نوجوانوں کی زندگی سے جوڑا، اور اللہ کے فضل سے یہ کام بہت وسیع پیمانے پر مقبول ہوا۔

اسلام اختیار کرنے والے کوریائی افراد کے بارے میں پارک  کا کہنا ہے:

"لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام اختیار کرتے ہیں؛ کچھ شادی یا دوستی کی وجہ سے، مگر زیادہ تعداد تحقیق اور غور و فکر کے بعد اسلام قبول کرتی ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ ماہر مبلغین کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف پانچ افراد نے مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے، جس کی وجہ بیرون ملک وظائف حاصل کرنے میں مشکلات اور اندرون ملک ادارہ جاتی مدد کا فقدان ہے۔

عبداللہ پارک کے بقول کوریا کی روایتی ثقافت مذہبی کام کے لیے مکمل وقف ہونے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، مگر نئی نسل کے نوجوان آن لائن تعلیم اور میڈیا کے ذریعے فرداً فرداً اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہیں۔

وہ کہتے ہیں :جنوبی کوریا میں مسلمانوں کی کل تعداد تقریباً دو لاکھ ہے، جن میں زیادہ تر غیر ملکی ملازمین اور طلبہ ہیں۔ مقامی کوریائی مسلمان تقریباً پندرہ ہزار ہیں، جن میں سے صرف چند سو لوگ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے اور مسجد میں نظر آتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں اسلام کی اشاعت کے ذرائع کے حوالے سے وہ کہتے ہیں  کہ وہاں  اسلام پھیلانے کا اہم ذریعہ شادی ہے، اس کے بعد انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آتا ہے، جہاں نوجوان ذاتی تحقیق کے ذریعے اسلام سے واقف ہوتے ہیں۔

پارک نے بتایا کہ مذہبی اسکولوں کی کمی اور تربیت یافتہ کوریائی علماء کی عدم موجودگی ایک چیلنج ہے۔ "پورے ملک میں صرف ایک کوریائی امام ہے، اور تعلیمی مراکز بہت محدود ہیں، جن میں ایک چھوٹا مرکز سیول میں بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیتا ہے۔"

کچھ تفریق یا ہراسانی کے واقعات سامنے آئے ہیں، مگر حکومت قانونی طور پر تحفظ فراہم کرتی ہے اور جسمانی حملے یا سرکاری امتیاز کی اجازت نہیں دیتی۔

پارک نے بتایا کہ جنوبی کوریا کے نوجوان مسلمان اسلام کی تعلیم اور معلومات آن لائن اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ وہ ترجمہ اور میڈیا میں سب سے زیادہ فعال ہیں۔"

 

ان کے  لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک غیر مسلم خاندانوں کے اعتراضات ہیں۔ "کئی والدین اپنے بچوں کے اسلام اختیار کرنے کے فیصلے کو نہیں سمجھ پاتے، مگر صبر اور مکالمے سے نوجوان اسلام پر قائم رہتے ہوئے خاندان کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں۔"

آج، جنوب کوریا میں اسلام تیزی سے  بڑھتا ہوا مذہب ہے ،   جس کی فکر کویت میں ایک مکالمے  کے دوران پیدا ہوئی،  شیخ  عبدالوہاب زاہد ندوی  نے اس فکر کو عملی جامہ پہنایا، اور اب اس  امانت کو  کوریائی نوجوان علم وعمل کے ذریعے آگے بڑھارہے ہیں۔ 

ہفتہ، 4 اکتوبر، 2025

شیخ بشیر احمد صدیق رحمہ اللہ کی وفات

 

از قلم : ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

شیخ القراء مسجد نبوی شریف

شیخ بشیر احمد صدیق رحمہ اللہ  کی وفات

 (ہندوستان سے مدینہ منورہ تک کا سفر)



2
اکتوبر 2025  بروز جمعرات کی صبحِ دمِ فجر، مدینہ منورہ کی مقدس فضا میں مسجد نبوی کے شیخ القراء، شیخ بشير أحمد صديق (رحمہ الله) کی روح اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ نمازِ فجر بعد روضۂ اقدس کے جوار میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، اور اہل علم، طلبہ و محبین کی ایک بڑی جماعت نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ انہیں جنت البقیع کے پاکیزہ احباب صحابہ کرام و تابعین کے پہلو میں سپردِ خاک کیا۔

ابتدائی تعلیم:

شیخ بشير أحمد صديق کا تعلق ماقبل تقسیم برصغیر کے خطہ پنجاب (مظفر گڑھ) کی بستی "لیہ" سے تھا، جہاں وہ 1357ھ / 1938ء میں پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسنِ صوت، ذکاوتِ ذہن اور حفظ و اتقان کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ بچپن ہی میں قرآن مجید کو حفظ کر لیا اور "حفص عن عاصم" میں مہارت حاصل کی۔ پھر علم القراءات کی وادیوں میں قدم رکھا اور لاہور و کراچی کی عظیم درسگاہوں سے قراءات سبع و عشر کی تکمیل کی۔ اس سفر میں انہیں ایسے جلیل القدر شیوخ کی صحبت نصیب ہوئی جن میں الشيخ عبد العزيز الشوقي، الشيخ فتح محمد الفانيفتي، الشيخ حسن إبراهيم الشاعر اور شیخ القراء بالشام حسین خطاب شامل ہیں۔

ہجرتِ مدینہ و تدریس:

علم کا یہ پیکر 1385ھ میں شوقِ مدینہ لیے، حرمِ نبوی کے پہلو میں آن پہنچا۔ جلد ہی اسے تدریس کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ 1387ھ میں معهد القراءات بالمدینۃ المنورة میں مدرس مقرر ہوئے، پھر اس کے مدیر بنائے گئے۔ نصف صدی سے زیادہ مدت تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے۔ ان کے حلقہ درس سے دنیا بھر کے طالبان علوم قرآن نے استفادہ کیا۔

علمی مقام و خدمات:

شیخ بشير أحمد صديق کی شہرت محض مدرس اور محدث قرآن کی نہ تھی بلکہ وہ ایک مرجع علمی تھے، جن کے سامنے قراءات کے مشکل مسائل حل ہوتے تھے۔ ان کا خاص امتیاز ضبطِ اسانید اور دقتِ تعلیم تھا۔ انہوں نے روایت و درایت دونوں کو جمع کیا۔ انہوں نے نہ صرف مدینہ  منورہ میں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک (مغرب، مشرق وسطیٰ، یورپ، افریقہ) میں بھی قرآنی مدارس کا جائزہ لیا اور قراء کی تصحیح کی۔ کئی بار مراکش کے شاہی قصر میں رمضان المبارک میں تلاوت کے لیے مدعو کیے گئے۔

تلامذہ :

شیخ بشیر احمد صدیق کے حلقہ درس سے عظیم قراء کرام کا  ایک قافلہ تیار ہوا، جس نے عالمِ اسلام میں قراءات کی خدمت کو آگے بڑھایا۔ انہی میں دو جلیل القدر ائمہ حرم شیخ محمد ایوبؒ امام مسجد نبوی اور شیخ علی الجابرؒ جیسے نامور شخصیات ہیں جنہوں نے خدمت قرآن کریم میں عالمی شہرت حاصل کی۔ اس کے ہند و پاک، مغرب و الجزائر، مصر و شام سے لے کر جزائر الشرق تک درجنوں ممتاز قراء اور علماء کرام نے ان کے حلقہ درس سے استفادہ کیا۔

تصانیف :

شیخ بشیر احمد صدیق ؒ نے علم القراءات میں کئی گراں قدر تالیفات پیش کیں، جن میں:

1.  أوضح المعالم في قراءة الإمام عاصم بروایۃ شعبہ

2.  جامع المنافع في قراءة الإمام نافع بروايتي قالون وورش

اہم ہیں۔ اسی طرح انہوں نے قرآن کریم کو مختلف روایات (خصوصاً ورش عن نافع) پر ریکارڈ بھی کروایا، جو آج محفوظ ہے۔

اللهم اجزه عن القرآن وأهله خير الجزاء، واجعل قبره روضة من رياض الجنة، وارفع درجته في عليين مع النبيين والصديقين والشهداء والصالحين، وحسن أولئك رفيقًا.

 

منگل، 30 ستمبر، 2025

سورۂ اخلاص میں لفظ "احد"

 

ازقلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

 

سورۂ اخلاص میں لفظ "احد"

یہ وہ سورت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے قرآن کے ثلث کے برابر قرار دیا۔ اور اس کی بنیاد لفظ "احد" پر ہے، جو پوری توحید کا لب لباب ہے۔

قُلْ کی عظمت:

قرآن میں قُلْ اس وقت آتا ہے جب کوئی سوال، کوئی شبہ، یا کوئی استفسار فضا میں پھیل رہا ہو۔ جیسے کوئی پوچھتا ہو: یہ اللہ کون ہے جس کی طرف آپ ﷺ دعوت دیتے ہیں؟

اس کا جواب وہی ایک جملہ ہے: هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ  وہ اللہ ایک ہے، یکتا ہے۔

یہ سوال کبھی مومن کی زبان پر ہوتا ہے جو اپنے رب کو پہچاننا چاہتا ہے، کبھی کسی حق کے متلاشی کے دل میں اٹھتا ہے جو سرگردانی اور اضطراب میں بھٹک رہا ہے، اور کبھی مشرک کے ذہن میں ہوتا ہے جو کہتا ہے: ہمارے پاس بھی اللہ ہے مگر ہم تو اس تک اپنے معبودوں کے ذریعے پہنچتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قریش بھی یہ سوالات کرتے تھے،، نصاریٰ اور یہود بھی کرتے تھے، بلکہ قدیم اقوامِ یونان و روم کے بھی یہی سوالات تھے کہ اللہ کے بیٹے اور شریک ہیں۔ سورۂ اخلاص سب کا جواب ہے: اللہ نہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا، نہ اس کا کوئی ہمسر۔

لفظ اللہ کی خصوصیت:

آیت کہتی ہے: هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ۔

یہاں اللہ کا نام "ال" کے ساتھ آیا ہے، یعنی وہی معرّف، وہی مخصوص، وہی جو اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے۔ "إله" اصل ہے، اور "الله" اس کی وہ صورت ہے جس میں ساری عظمت اور ساری الوہیت سمیٹ دی گئی ہے۔ یہ ایسا نام ہے جو نہ پہلے کسی کے لیے تھا، نہ بعد میں کسی کے لیے ہوگا۔

واحد اور احد میں فرق:

قرآن میں اللہ کے لیے لفظ "واحد" بھی آیا ہے اور "احد" بھی۔ لیکن "واحد" کے ساتھ ہمیشہ "القهار" ملا ہےهُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۔

یعنی وہ ایک ہے اور سب پر غالب ہے۔

مگر "احد" کی شان الگ ہے۔ "واحد" عدد کی ابتدا ہے، اس کے بعد دو، تین آسکتے ہیں۔ لیکن "احد" ایسا نہیں ہے۔ "احد" کے ساتھ کوئی دوسرا نہیں آسکتا۔ یہ اس کی یکتائی اور لاشریک ہونے کا لفظ ہے۔ اسی لیے سورہ اخلاص کا مرکز "احد" ہے، نہ کہ "واحد"۔

اللہ الصمد

"احد" کے ساتھ ہی فرمایا: اللَّهُ الصَّمَدُ۔

یعنی سب اسی کی طرف محتاج ہیں، سب اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ وہی سب کا سہارا ہے، وہی سب کا مقصود ہے۔ انسان خواہ مومن ہو یا کافر، علم والا ہو یا جاہل آخرکار اس کا سفر اسی دروازے پر ختم ہوتا ہے:

 ﴿يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ﴾ (الانشقاق: 6)۔

نہ اس کی اولاد ہے نہ ماں باپ:

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ  یعنی وہ اول ہے اور آخر ہے۔ جس کا بیٹا ہو وہ آخر نہیں، جس کے والدین ہوں وہ اول نہیں۔ اس کی یکتائی میں یہ دونوں دروازے بند ہیں۔

 

کوئی اس کا ہمسر نہیں

سورہ کے خاتمے پر پھر وہی لفظ آیا: وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ۔
یعنی نہ کوئی اس کا ہمسر ہے، نہ اس جیسا۔ مخلوق میں صفاتِ الٰہیہ کی پرچھائیاں ہیں، لیکن کمال اور لاانتہاء صرف اسی کی ذات کو ہے۔

 

لبّ لباب:

یہ سورت توحید کا نچوڑ ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اس کی تلاوت ثلث قرآن کے برابر ہے۔" (بخاری)۔

گویا سورۂ اخلاص کا لفظ "احد" پوری کائنات کو صدا دیتا ہے: اللہ اکیلا ہے، بے نیاز ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ آغاز ہے نہ انجام، نہ ہمسر ہے نہ مددگار۔ اور یہی وہ ایمان ہے جو دین کی بنیاد اور قرآن کا مقصود ہے۔

  

سورہ یوسف کی روشنی میں انسانی مسائل کا حل

 

از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

سورہ یوسف کی روشنی میں انسانی مسائل کا حل 

قرآن مجید نے سورۂ یوسف کو "أحسن القصص" قرار دیا ہے۔ لیکن یہ سورت تاریخ کا صرف ایک قصہ  نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے ازلی اور ابدی مسائل کا خدائی منشور بھی  ہے۔ اس میں فرد کی باطنی کیفیات سے لے کر قوموں کے اجتماعی نشیب و فراز تک ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یوسف علیہ السلام کی داستان، محض ایک نبی کی آزمائشوں کا بیان نہیں ہے، بلکہ تمام زمانوں اور سارے انسانوں کے لیے ایک چراغِ ہدایت ہے۔ آج جب دنیا اقتصادی بحران، سیاسی جبر، اور سماجی انحطاط کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے، سورۂ یوسف کی ہدایات ہمارے سامنے ایک ایسا مینارۂ نور ہیں جو ہر راہرو کو منزل کا پتہ دیتا ہے۔

 اس سورت کا ایک مرکزی سبق  خطرے کی نشاندہی کے ساتھ اس کے مقابلے کی تیاری کرنا ہے۔ مصر کے بادشاہ کے خواب کی تعبیر میں حضرت یوسفؑ نے آنے والے قحط کی خبر دی، مگر ساتھ ہی اس کے مقابلے کے لیے ایک مکمل منصوبہ بھی تجویز فرمایا۔ سات برس کی فراوانی کو سات برس کی تنگی کے لیے محفوظ کیا گیا۔ یہ وہی اصول ہے جسے آج کی زبان میں "اسٹریٹجک پلاننگ" یا "سیو اینڈ انویسٹ" کہا جاتا ہے۔

قرآن یہاں ہمیں بتاتا ہے کہ خوشحالی کے دنوں میں عقل مندی اور احتیاط ہی قوموں کو زوال کے عذاب سے بچا سکتی ہے۔

سورۂ یوسف ایک اور حقیقت آشکار کرتی ہے کہ معاشی بحران اکثر سیاسی انقلاب کی تمہید بن جاتے ہیں۔ مصر کے قحط نے عوام کو بے چین کیا اور یہی بے چینی حاکمِ وقت کو حضرت یوسفؑ جیسے صالح اور دیانت دار شخص کو اقتدار سونپنے پر مجبور کر گئی۔ یہ آیتِ قرآنی آج بھی صادق آتی ہے کہ جب کوئی نظام عوام کی حاجات پوری کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو عوامی دباؤ اسے بدل دیتا ہے۔  حال ہی میں نیپال کا جی زیٹ انقلاب، اس سے پہلے بنگلادیش کا انقلاب اور محمد یونس کو عہدہ وزارت سونپنا، اس سے پہلے 2011ء کی عرب بہار یا 2008ء کا عالمی مالی بحران اسی قانونِ الٰہی کی زندہ مثالیں ہیں۔

وسائل کی منصفانہ تقسیم: حضرت یوسفؑ نے نہ صرف غلے کی ذخیرہ اندوزی کی، بلکہ اس کی منصفانہ تقسیم بھی یقینی بنائی۔ یوں قحط کے ایام میں دولت و طاقت کو چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے بچایا۔ اس پہلو سے قرآن کا پیغام واضح ہے کہ قدرتی وسائل پر سب کا حق ہے، اور استحصال سے پاک تقسیم ہی معاشرے کو استحکام بخشتی ہے۔ آج جبکہ ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، سورۂ یوسف ہمیں عدلِ اجتماعی کی طرف بلاتی ہے۔

اسی طرح اس سورت میں انسانی فطرت کی باریکیاں نہایت حسن سے بیان ہوئی ہیں۔ بھائیوں کا حسد، باپ کی بے قراری، یوسفؑ کا صبر، اور انجام کار عفو و درگزر یہ سب کیفیات ہر دور اور ہر انسان کے باطن میں جھانکتی ہیں۔ بھائیوں کا یوسفؑ سے حسد آج کے معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کی مثال ہے، اور یوسفؑ کا معاف کر دینا ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی غلبہ انتقام میں نہیں، بلکہ عفو میں ہے۔

اس سورت میں قرآن مجید آخر میں اعلان کرتا ہے:

﴿لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (یوسف: 111)

یعنی "ان کے واقعات میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے۔"

یہ پیغام ہے کہ ہر اندھیری رات کے بعد صبح کا اجالا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم صبر، تدبیر اور توکل سے کام لیں۔ سورۂ یوسف ہمیں بتاتی ہے کہ بحران میں گھبرانے کے بجائے سوچنا، منصوبہ بنانا اور اللہ کی مدد پر یقین رکھنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ آج کے دور کی مایوسیوں میں یہ سورت ہمارے لیے امید کی کرن ہے اور زبانِ حال سے کہتی ہے:

﴿فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ﴾ (یوسف: 18)

 

 

ہفتہ، 27 ستمبر، 2025

 

از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی


کویتی امراء کے معلم

قاضی شیخ ملا عبدالعزیز قاسم حمادہ رحمہ اللہ

26 ستمبر 1962ء۔ یہ تاریخ کویت کے دینی و علمی افق پر ایک غم انگیز دن کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔ اسی روز اس سرزمینِ خلیج نے اپنے ایک جلیل القدر عالم، خطیب، امام اور قاضی، حضرتِ شیخ ملا عبدالعزیز قاسم حمادہؒ کو ہمیشہ کے لیے سپردِ خاک کیا۔ اس برس ان کی رحلت کو تریسٹھ برس گزر چکے ہیں، مگر ان کی خدمات کا چرچا زندہ ہے اور ان کی یاد ابھی تک دلوں کو گرماتی ہے۔

ملا عبدالعزیز حمادہ نے 1897ء میں "فريج سعود" کے قدیم محلہ میں آنکھ کھولی۔ گھر علمی تھا، ماحول دینی۔ ابتدائی تعلیم اپنی عمتہ المكرّمہ مطوّعہ موزہ حمادہ کی درسگاہ میں پائی۔ قرآن، حدیث، فقہ، حساب کی مبادیات "مدرسة حمادہ" میں پڑھیں۔ آگے بڑھ کر بڑے اہلِ علم کی صحبت نصیب ہوئی: شیخ جمعة الجودر البحرینی، شیخ عبد الله العدساني، شیخ عبد الله الدحيان رحمہم اللہ۔ یہ سب ان کے ذہن و قلب کو منور کرنے والے چراغ تھے۔

کم سنی ہی میں تدریس کی ذمہ داری لی۔ اپنے والد مرحوم کے قائم کردہ "مدرسة حمادہ" کو نئی روشنیوں سے آراستہ کیا۔ بعد کے زمانے میں "مدرسة الإرشاد" اور "مدرسة السعادة" میں بھی معلم رہے۔ یہاں ان کے درس کا فیض بڑے بڑوں تک پہنچا۔ آلِ صباح کے امراء و شیوخ ان کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ انہی میں سے ایک مرحوم امیرِ کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح، اور موجودہ امیر کویت شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح ہیں۔ اس حیثیت سے وہ بجا طور پر "امراء کے معلم" کہلائے۔

1930ء میں قضا کی مسند پر فائز ہوئے۔ سولہ برس تک عدل کی کرسی کو زینت بخشی۔ ان کا طریق فیصلہ رواداری پر مبنی، طرزِ فکر اعتدال آمیز۔ سن 1942ء کا واقعہ یادگار ہے کہ باوجود مالکی المذہب ہونے کے، حنبلی فقہ کی روشنی میں فریقین کے حق میں فیصلہ صادر کیا۔ یہ ان کی وسعتِ ظرفی اور انصاف پسندی کی روشن دلیل ہے۔

امامت و خطابت بھی ان کے فرائض میں شامل رہی۔ مسجد "الحداد" اور مسجد "السوق" کے منبر و محراب ان کی پرنور آواز سے آباد رہے۔ خطبوں میں اخلاقی و دینی تربیت کا رنگ جھلکتا۔ وہی رنگ، وہی مزاج بعد میں اوقاف کے نظام، اساتذہ کی انجمن، اور ریڈیو کویت کے ابتدائی دینی پروگراموں میں بھی نمایاں ہوا۔

سفر بھی کیے۔ مصر گئے، ازہر کے علماء سے ملاقاتیں کیں۔ احساء کا رخ کیا، وہاں کے مشائخ سے فقہی مباحث سنے۔ نتیجہ یہ کہ فکر وسیع ہوئی، مزاج میں اعتدال آیا، نظر میں توازن پیدا ہوا۔ ان کی تربیت سے علما بھی نکلے، قاضی بھی، معلم بھی اور قائدینِ قوم بھی۔

آخر کار 26 ستمبر 1962ء کو طویل علالت کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ پورے کویت میں سوگ کی کیفیت طاری ہوئی۔ حکومت نے ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے "العارضیہ" کے علاقے میں ایک اسکول ان کے نام سے منسوب کیا۔

آج بھی کویت ان کو یاد کرتا ہے—ایک عالم کی حیثیت سے، ایک قاضی کی حیثیت سے، ایک خطیب اور مصلح کی حیثیت سے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم، عدل اور خدمتِ خلق کے لیے وقف کر دی۔

فُتُور کیا ہے؟


از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی

قارئین! یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ فُتُور کے معنی عربی لغت میں دو طرح سے بیان کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی سرگرم اور متحرک چیز کا اچانک رک جانا یا پھر کسی تیز رفتار چیز کا سست پڑ جانا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ چستی اور محنت کے بعد سُستی اور کاہلی کا غالب آجانا۔ لسان العرب میں یہ بھی لکھا ہے کہ: "کسی چیز کا فاتر ہو جانا، یا اس کا جوش اور گرمی ٹھنڈی پڑجانا، اس کی تیزی کے بعد سست پڑ جانا اور اس کی شدت کے بعد نرم پڑ جانا ۔

اصطلاحی معنوں میں فُتُور ایک ایسی بیماری ہے جو ہر اُس انسان کو لگ سکتی ہے جو محنت اور کوشش میں لگا ہو۔ اس کا کم ترین درجہ محض کاہلی اور سستی ہے، لیکن اس کی انتہا یہ ہے کہ انسان محنت اور لگن کے بعد بالکل ہی رک جائے اور سُست پڑ جائے۔ اللہ رب العزت نے فرشتوں کے بارے میں فرمایا:

(وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ

ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو ہے اسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس ہیں وه اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں  (الانبیاء: 19-20)

یعنی یہ کہ وہ مسلسل عبادت میں رہتے ہیں، ہر اس چیز سے اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں جو اس کے شایانِ شان نہیں ہے، اور وہ دن رات اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اور نہ ہی کمزور پڑتے ہیں اور نہ ہی اکتاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔

 

فُتُور کی وجوہات

یہ فُتُور کی بیماری انسان کے دل میں کئی اسباب کی بنا پر گھر کر لیتی ہے، جن میں سے چند یہ ہیں:

 

1- دین میں غلو اور حد سے زیادہ سختی:

جب انسان عبادت میں اتنا ڈوب جاتا ہے کہ اپنے بدن کو اس کا حق نہیں دیتا، اسے آرام اور جائز لذتوں سے محروم کر دیتا ہے تو اس کا نتیجہ کمزوری، اکتاہٹ اور بیزاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ نتیجتاً وہ کام چھوڑ دیتا ہے اور بسا اوقات تو اس راہ کے بالکل برعکس چل پڑتا ہے۔ وہ شخص جو افراط میں مبتلا تھا، اب تفریط کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ انسان کی طاقت محدود ہے اور جب وہ اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے تو اسے تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے، جس سے سستی اور رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غلو سے سختی سے منع کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

 "دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔"

 ایک اور جگہ آپ نے فرمایا :

(هلك المتنطعون) "ہلاک ہوئے حد سے بڑھنے والے۔

یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دہرائے، جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اقوال اور افعال میں حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔

 ایک اور حدیث میں فرمایا:

 "اپنے اوپر سختی نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر سختی مسلط کر دی جائے، کیونکہ ایک قوم نے اپنے اوپر سختی کی تو ان پر سختی کر دی گئی، (رهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم)  یہ ایسی رہبانیت ہے جو انہوں نے خود ایجاد کی، ہم نے ان پر اسے فرض نہیں کیا تھا۔

 

2- جائز أمور یعنی مباحات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا:

مباح چیزوں میں ضرورت سے زیادہ مشغولیت انسان کے جسم کو فربہ اور بے ڈول کر دیتی ہے، اور شہوات اس پر غالب آجاتی ہیں۔ اس سے انسان پر سُستی اور کاہلی چھا جاتی ہے، اور بعض اوقات تو وہ بالکل ہی رک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسراف سے منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: " اے آدم کی اولاد! ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اختیار کرو، اور کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ " (الاعراف: 31) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ما ملأ ابن آدم وعاء شر من بطنه...): "ابن آدم نے اپنے پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں بھرا۔"

 

3-  جماعت کو چھوڑ کر تنہائی اختیار کرنا

یہ حقیقت ہے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے، اس میں کئی مراحل اور رکاوٹیں ہیں جن کے لیے تجدیدِ عمل کی ضرورت ہے۔ جب مسلمان ایک جماعت کے ساتھ سفر کرتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے آپ کو تازہ دم اور مضبوط ارادوں والا پاتا ہے۔ اس کے عزائم پختہ ہوتے ہیں اور وہ خود کو یاددہانی کرواتا رہتا ہے، لیکن جب وہ جماعت کو چھوڑ دیتا ہے اور تنہائی کو پسند کرتا ہے تو وہ اس شخص سے محروم ہو جاتا ہے جو اس کی سُستی کو دور کرے اور اس کے ارادوں کو مضبوط بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جماعت کے ساتھ رہنے کی تاکید کی ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے۔" حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: "جماعت کی کدورت فرد کی صفائی سے بہتر ہے۔"

 

4- موت اور آخرت کو کم یاد کرنا

موت اور آخرت کو کم یاد کرنے سے بھی ارادہ کمزور پڑتا ہے، عزائم سست پڑ جاتے ہیں اور عمل میں سُستی آجاتی ہے، حتیٰ کہ انسان بالکل ہی رک جاتا ہے۔ شاید اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبروں کی زیارت کا حکم دیا، حالانکہ پہلے منع کیا تھا، جب آپ نے فرمایا: إني نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها فإن فيها عبرة) وفي رواية: (كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروا القبور، فإنها تزهد في الدنيا وتذكر الآخرة (میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب ان کی زیارت کرو، کیونکہ ان میں عبرت ہے۔

 

5- روزانہ کے معمولات میں کمی کرنا

فرائض اور سنن میں کوتاہی، مثلاً عشاء کے بعد رات گئے بے جا گپ شپ کی وجہ سے نماز کا قضا ہو جانا، رات کی نماز اور چاشت کی نماز کو چھوڑ دینا، قرآن کی تلاوت، ذکر، دعا، یا استغفار میں سستی، یا بغیر عذر کے مسجد نہ جانا، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کا نتیجہ فُتُور کی صورت میں نکلتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "شیطان تمہارے سر کے پچھلے حصے پر تین گرہیں لگا دیتا ہے جب تم سوتے ہو، اور ہر گرہ پر کہتا ہے: 'تم پر رات لمبی ہے، سو جاؤ۔' اگر تم جاگ کر اللہ کا ذکر کرتے ہو تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، اگر وضو کرتے ہو تو دوسری کھل جاتی ہے، اور اگر نماز پڑھتے ہو تو تیسری بھی کھل جاتی ہے۔"

(يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاث عقد: يضرب كل عقدة، عليك ليل طويل فارقد، فإن استيقظ وذكر الله انحلت عقدة، وإن توضأ انحلت عقدة، فإن صلى انحلت عقدة، فأصبح نشيطاً طيب النفس، وإلا أصبح خبيث النفس كسلان)

 

6- حرام یا مشتبہ چیز کھانا

جب انسان کے پیٹ میں حرام یا مشتبہ چیز داخل ہو جاتی ہے تو اس کا سب سے کم ترین بدلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر عبادات سے دور ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے حلال رزق کمانے اور مشتبہ چیزوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا ہو، آگ ہی اس کے لیے بہتر ہے۔

(كل جسد نبت من سحت - أي من حرام - فالنار أولى به)

 

7- دین کے صرف ایک پہلو پر توجہ دینا

جب کوئی شخص دین کے صرف ایک پہلو پر توجہ مرکوز کرتا ہے، مثلاً صرف عقائد پر، یا صرف عبادات پر، یا صرف اخلاقیات پر، تو ایسے لوگ بھی ایک وقت آتا ہے کہ فُتُور کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ دینِ اسلام پوری زندگی کے لیے ہے، اور جب کوئی صرف ایک جزو پر عمل کرتا ہے تو گویا وہ پوری زندگی کے بجائے صرف زندگی کے ایک حصے کو جینا چاہتا ہے۔ پھر جب وہ اس حصے میں کمال حاصل کر لیتا ہے تو سوال اٹھتا ہے: اب کیا؟ اور جواب صرف فُتُور کی صورت میں آتا ہے، چاہے وہ بے بسی کی وجہ سے ہو یا کاہلی کی وجہ سے۔

 

8- کائنات اور انسانی زندگی میں اللہ کی سنتوں پر غور نہ کرنا:

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو راتوں رات پورے معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں، ان کی سوچ، اخلاق اور نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ ہر کام میں تدریج ضروری ہے۔ جب ان کے ارادوں کے مطابق نتائج نہیں نکلتے تو وہ سُستی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بعض اوقات تو کام چھوڑ کر بالکل علیحدہ ہو جاتے ہیں۔

 

9- بدن کے حق میں کمی کرنا

کچھ محنتی لوگ اپنے آپ کو اتنا مصروف رکھتے ہیں کہ اپنے بدن کو آرام کا وقت نہیں دیتے۔ ایسے لوگ بھی بالآخر فُتُور کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے رب کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے، لہٰذا ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرو۔

(إن لربك عليك حقاً، وإن لنفسك عليك حقاً ولأهلك عليك حقاً فأعط كل ذي حق حقه " وفي رواية أخرى: " فإن لجسدك عليك حقاً، وإن لعينك عليك حقاً، وإن لزوجك عليك حقاً، وإن لزويك عليك حقاً ")

 

10- راستے کی رکاوٹوں کا سامنا کرنے کی تیاری نہ کرنا:

جب کوئی شخص کسی راہ پر چلتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ راستے کی رکاوٹوں کا علم رکھے، تاکہ ان کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ جب کوئی بغیر تیاری کے چل پڑتا ہے اور اسے رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، مثلاً بیوی، اولاد، دولت یا کسی آزمائش کی وجہ سے، تو وہ ان کا مقابلہ نہیں کر پاتا اور سستی کا شکار ہو جاتا ہے۔

 

11- کمزور ارادوں اور پست ہمت لوگوں کی صحبت اختیار کرنا:

ایک محنتی انسان جب کمزور ارادوں والے لوگوں کی صحبت میں رہتا ہے تو ان کی سستی اور کاہلی اسے بھی متاثر کرتی ہے، اور وہ ان کے جیسا ہو جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔

 

12- کام میں بے نظمی اور بے ترتیبی:

بہت سے محنتی لوگ اپنے کاموں میں بے نظمی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ اہم اور بنیادی کاموں کو چھوڑ کر غیر اہم اور معمولی کاموں میں الجھے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ راستہ طویل ہو جاتا ہے اور قربانیاں بڑھ جاتی ہیں، جس سے اکثر فُتُور غالب آ جاتا ہے۔

 

13- گناہوں کا ارتکاب:

گناہ، خاص طور پر چھوٹے گناہ جنہیں انسان معمولی سمجھتا ہے، انسان کو فُتُور میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ  (الشوریٰ: 30)

تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وه تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کابدلہ ہے، اور وه تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے

 

فُتُور کا علاج:

جب فُتُور اتنی تباہ کن بیماری ہے تو اس سے بچنا اور اس کا علاج کرنا ضروری ہے۔ اس کا علاج ان طریقوں سے کیا جاسکتا ہے:

 

1-    گناہوں سے دوری اختیار کرنا

گناہ دلوں کو جلا دیتے ہیں اور اللہ کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ جس پر اللہ کا غضب نازل ہو، وہ واضح طور پر خسارے میں ہے۔

 

2-     روزانہ کے معمولات کی پابندی

ذکر، دعا، استغفار، قرآن کی تلاوت، چاشت کی نماز، رات کی نماز اور خاص طور پر سحری کے وقت کی مناجات دلوں میں ایمان کو تازہ کرتی ہیں، ہمتوں کو بلند کرتی ہیں اور ارادوں کو مضبوط بناتی ہیں۔

 

3-    فضیلت والے اوقات کا درست استعمال:

فُتُور سے بچنے اور ہمت کو بڑھانے کے لیے ان اوقات میں عمل کرنا چاہیے جو فضیلت والے ہیں جیسے جمعہ کے دن کی مخصوص ساعتیں اور پیر اور جمعرات کے روزوں کا اہتمام۔

 

4-    غلو اور سختی سے آزادی

دین میں سختی اور غلو سے پرہیز کرنا کاموں کو ثابت قدمی سے مسلسل جاری رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ تم (عمل کرنے سے) اکتا جاؤ۔ اور اللہ کو دین کا وہی عمل زیادہ پسند ہے، جس کا کرنے والے اسے ہمیشہ کرے۔

(يا أيها الناس عليكم من الأعمال ما تطيقون، فإن الله لا يمل حتى تملوا، وإن أحب الأعمال إلى الله ما دووم عليه وإن قل)

 

5-    جماعت کے ساتھ رہنا:

جماعت کی آغوش میں اپنے آپ کو رکھنا اور اس سے کبھی جدا نہ ہونا فُتُور سے بچنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "جماعت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب ہے۔

(الجماعة رحمة و الفرقة عذاب اور ایک جگہ فرمایا: يد الله مع الجماعة)

 

6-    کائنات اور انسانوں میں اللہ کی سنتوں کو سمجھنا

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اور ہر کام میں تدریج ضروری ہے۔

 

7-     راستے کی رکاوٹوں کا پہلے ہی علم حاصل کرنا

کام شروع کرنے سے پہلے ہی راستے کی رکاوٹوں کا علم حاصل کر لینا چاہیے، تاکہ ان کا سامنا کرنے کی تیاری ہو۔

 

8-    کام میں درستگی اور منصوبہ بندی

کام کو منصوبہ بندی کے ساتھ کرنا چاہیے اور اہم امور کو ترجیح دینی چاہیے۔

 

9-    صالح اور محنتی لوگوں کی صحبت اختیار کرنا

صالحین کی صحبت دلوں کو زندگی بخشتی ہے، اور ان کی روحانیت انسان کی ہمتوں کو مضبوط کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں بہترین لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟" انہوں نے کہا: "کیوں نہیں، یا رسول اللہ۔" آپ نے فرمایا: "جنہیں دیکھ کر تمہیں اللہ یاد آجائے۔"

 

10-  بدن کو اس کا حق دینا

اپنے جسم کو آرام اور معتدل خوراک دینا ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی قوت اور چستی واپس حاصل کر سکے۔

 

11-  مباحات یعنی جائز امور کے ذریعے دل بہلانا

اہل و عیال کے ساتھ دل لگی، بچوں کے ساتھ کھیلنا، اور سیر وتفریح وغیرہ سے بیزاری اور اکتاہٹ ختم ہوتی ہے، جس سے انسان نئی چستی کے ساتھ کام میں واپس آتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "اے حنظلہ! ایک لمحہ ہوتا ہے اور دوسرا لمحہ بھی ہوتا ہے۔" (یعنی کام اور آرام دونوں ضروری ہیں)۔

 

12-  سیرت اور تاریخ کا مطالعہ

سیرت اور تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں مجاہدوں کی داستانیں ہوتی ہیں جو انسان کی ہمتوں کو بیدار کرتی ہیں اور اس میں پیروی کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔

 

 

13-  موت اور آخرت کو یاد کرنا

موت اور آخرت کو یاد کرنا نفس کو بیدار کرتا ہے اور غفلت سے نکالتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ اس میں عبرت ہے۔"

 

14-  جنت اور جہنم کو یاد کرنا

جنت کے انعامات اور جہنم کے عذاب کو یاد کرنے سے نیند اُڑ جاتی ہے اور سست ہمتیں بیدار ہوتی ہیں۔

 

15-  علم کی محفلوں میں شرکت کرنا

علم دلوں کی زندگی ہے، اور ایک سچے عالم کی ایک بات بھی انسان کو سالوں تک متحرک رکھ سکتی ہے۔

 

16-  دین کو مکمل طور پر اختیار کرنا

دین کو مکمل طور پر اپنانے سے ہی استقامت اور دوام حاصل ہوتا ہے۔

 

17-  نفس کا محاسبہ کرنا

اپنے نفس کا مستقل محاسبہ کرنے سے انسان اپنی خامیوں کو ابتدا ہی میں دیکھ لیتا ہے اور ان کا علاج کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیره) بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے  ( الحشر: 18)

 


فیچر پوسٹ

Watan se Mohabbat Aur Islam

✍ ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی  وطن سے محبت ۔۔ دین اسلام کی رہنمائی ((ما أطيبَك من بلدٍ! وما أحبَّك إليَّ! ولولا أن قومي أخرجوني منك،...