از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن
قاسمی
سورہ یوسف کی روشنی میں انسانی مسائل کا حل
قرآن مجید نے سورۂ یوسف
کو "أحسن القصص" قرار دیا ہے۔ لیکن یہ سورت تاریخ کا صرف ایک قصہ نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے ازلی اور ابدی مسائل کا خدائی منشور بھی ہے۔ اس
میں فرد کی باطنی کیفیات سے لے کر قوموں کے اجتماعی نشیب و فراز تک ہر پہلو پر
روشنی ڈالی گئی ہے۔ یوسف علیہ السلام کی داستان، محض ایک نبی کی آزمائشوں کا بیان
نہیں ہے، بلکہ تمام زمانوں اور سارے انسانوں کے لیے ایک چراغِ ہدایت ہے۔ آج جب دنیا
اقتصادی بحران، سیاسی جبر، اور سماجی انحطاط کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے، سورۂ
یوسف کی ہدایات ہمارے سامنے ایک ایسا مینارۂ نور ہیں جو ہر راہرو کو منزل کا پتہ
دیتا ہے۔
اس سورت کا ایک
مرکزی سبق خطرے کی نشاندہی کے ساتھ اس کے مقابلے
کی تیاری کرنا ہے۔ مصر کے بادشاہ کے خواب کی تعبیر میں حضرت یوسفؑ نے آنے والے قحط
کی خبر دی، مگر ساتھ ہی اس کے مقابلے کے لیے ایک مکمل منصوبہ بھی تجویز فرمایا۔
سات برس کی فراوانی کو سات برس کی تنگی کے لیے محفوظ کیا گیا۔ یہ وہی اصول ہے جسے
آج کی زبان میں "اسٹریٹجک پلاننگ" یا "سیو اینڈ انویسٹ" کہا
جاتا ہے۔
قرآن یہاں ہمیں بتاتا ہے
کہ خوشحالی کے دنوں میں عقل مندی اور احتیاط ہی قوموں کو زوال کے عذاب سے بچا سکتی
ہے۔
سورۂ یوسف ایک اور حقیقت
آشکار کرتی ہے کہ معاشی بحران اکثر سیاسی انقلاب کی تمہید بن جاتے ہیں۔ مصر کے قحط
نے عوام کو بے چین کیا اور یہی بے چینی حاکمِ وقت کو حضرت یوسفؑ جیسے صالح اور
دیانت دار شخص کو اقتدار سونپنے پر مجبور کر گئی۔ یہ آیتِ قرآنی آج بھی صادق آتی
ہے کہ جب کوئی نظام عوام کی حاجات پوری کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو عوامی دباؤ
اسے بدل دیتا ہے۔ حال ہی میں نیپال کا جی زیٹ انقلاب، اس سے پہلے
بنگلادیش کا انقلاب اور محمد یونس کو عہدہ وزارت سونپنا، اس سے پہلے 2011ء کی عرب
بہار یا 2008ء کا عالمی مالی بحران اسی قانونِ الٰہی کی زندہ مثالیں ہیں۔
وسائل کی منصفانہ
تقسیم: حضرت یوسفؑ نے نہ صرف غلے کی ذخیرہ اندوزی کی، بلکہ اس کی منصفانہ
تقسیم بھی یقینی بنائی۔ یوں قحط کے ایام میں دولت و طاقت کو چند ہاتھوں میں مرتکز
ہونے سے بچایا۔ اس پہلو سے قرآن کا پیغام واضح ہے کہ قدرتی وسائل پر سب کا حق ہے،
اور استحصال سے پاک تقسیم ہی معاشرے کو استحکام بخشتی ہے۔ آج جبکہ ذخیرہ اندوزی
اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، سورۂ یوسف ہمیں عدلِ اجتماعی کی طرف بلاتی
ہے۔
اسی طرح اس سورت میں
انسانی فطرت کی باریکیاں نہایت حسن سے بیان ہوئی ہیں۔ بھائیوں کا حسد، باپ کی بے
قراری، یوسفؑ کا صبر، اور انجام کار عفو و درگزر یہ سب کیفیات ہر دور اور ہر انسان
کے باطن میں جھانکتی ہیں۔ بھائیوں کا یوسفؑ سے حسد آج کے معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کی مثال
ہے، اور یوسفؑ کا معاف کر دینا ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقی غلبہ انتقام میں نہیں، بلکہ
عفو میں ہے۔
اس سورت میں قرآن مجید
آخر میں اعلان کرتا ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ فِي
قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (یوسف: 111)
یعنی "ان کے واقعات
میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے۔"
یہ پیغام ہے کہ ہر
اندھیری رات کے بعد صبح کا اجالا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم صبر، تدبیر اور توکل سے کام
لیں۔ سورۂ یوسف ہمیں بتاتی ہے کہ بحران میں گھبرانے کے بجائے سوچنا، منصوبہ بنانا
اور اللہ کی مدد پر یقین رکھنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ آج کے دور کی مایوسیوں میں
یہ سورت ہمارے لیے امید کی کرن ہے اور زبانِ حال سے کہتی ہے:
﴿فَصَبْرٌ جَمِيلٌ
وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ﴾ (یوسف: 18)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں