ہفتہ، 27 ستمبر، 2025

 

از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی


کویتی امراء کے معلم

قاضی شیخ ملا عبدالعزیز قاسم حمادہ رحمہ اللہ

26 ستمبر 1962ء۔ یہ تاریخ کویت کے دینی و علمی افق پر ایک غم انگیز دن کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔ اسی روز اس سرزمینِ خلیج نے اپنے ایک جلیل القدر عالم، خطیب، امام اور قاضی، حضرتِ شیخ ملا عبدالعزیز قاسم حمادہؒ کو ہمیشہ کے لیے سپردِ خاک کیا۔ اس برس ان کی رحلت کو تریسٹھ برس گزر چکے ہیں، مگر ان کی خدمات کا چرچا زندہ ہے اور ان کی یاد ابھی تک دلوں کو گرماتی ہے۔

ملا عبدالعزیز حمادہ نے 1897ء میں "فريج سعود" کے قدیم محلہ میں آنکھ کھولی۔ گھر علمی تھا، ماحول دینی۔ ابتدائی تعلیم اپنی عمتہ المكرّمہ مطوّعہ موزہ حمادہ کی درسگاہ میں پائی۔ قرآن، حدیث، فقہ، حساب کی مبادیات "مدرسة حمادہ" میں پڑھیں۔ آگے بڑھ کر بڑے اہلِ علم کی صحبت نصیب ہوئی: شیخ جمعة الجودر البحرینی، شیخ عبد الله العدساني، شیخ عبد الله الدحيان رحمہم اللہ۔ یہ سب ان کے ذہن و قلب کو منور کرنے والے چراغ تھے۔

کم سنی ہی میں تدریس کی ذمہ داری لی۔ اپنے والد مرحوم کے قائم کردہ "مدرسة حمادہ" کو نئی روشنیوں سے آراستہ کیا۔ بعد کے زمانے میں "مدرسة الإرشاد" اور "مدرسة السعادة" میں بھی معلم رہے۔ یہاں ان کے درس کا فیض بڑے بڑوں تک پہنچا۔ آلِ صباح کے امراء و شیوخ ان کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ انہی میں سے ایک مرحوم امیرِ کویت شیخ نواف الاحمد الجابر الصباح، اور موجودہ امیر کویت شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح ہیں۔ اس حیثیت سے وہ بجا طور پر "امراء کے معلم" کہلائے۔

1930ء میں قضا کی مسند پر فائز ہوئے۔ سولہ برس تک عدل کی کرسی کو زینت بخشی۔ ان کا طریق فیصلہ رواداری پر مبنی، طرزِ فکر اعتدال آمیز۔ سن 1942ء کا واقعہ یادگار ہے کہ باوجود مالکی المذہب ہونے کے، حنبلی فقہ کی روشنی میں فریقین کے حق میں فیصلہ صادر کیا۔ یہ ان کی وسعتِ ظرفی اور انصاف پسندی کی روشن دلیل ہے۔

امامت و خطابت بھی ان کے فرائض میں شامل رہی۔ مسجد "الحداد" اور مسجد "السوق" کے منبر و محراب ان کی پرنور آواز سے آباد رہے۔ خطبوں میں اخلاقی و دینی تربیت کا رنگ جھلکتا۔ وہی رنگ، وہی مزاج بعد میں اوقاف کے نظام، اساتذہ کی انجمن، اور ریڈیو کویت کے ابتدائی دینی پروگراموں میں بھی نمایاں ہوا۔

سفر بھی کیے۔ مصر گئے، ازہر کے علماء سے ملاقاتیں کیں۔ احساء کا رخ کیا، وہاں کے مشائخ سے فقہی مباحث سنے۔ نتیجہ یہ کہ فکر وسیع ہوئی، مزاج میں اعتدال آیا، نظر میں توازن پیدا ہوا۔ ان کی تربیت سے علما بھی نکلے، قاضی بھی، معلم بھی اور قائدینِ قوم بھی۔

آخر کار 26 ستمبر 1962ء کو طویل علالت کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ پورے کویت میں سوگ کی کیفیت طاری ہوئی۔ حکومت نے ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے "العارضیہ" کے علاقے میں ایک اسکول ان کے نام سے منسوب کیا۔

آج بھی کویت ان کو یاد کرتا ہے—ایک عالم کی حیثیت سے، ایک قاضی کی حیثیت سے، ایک خطیب اور مصلح کی حیثیت سے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم، عدل اور خدمتِ خلق کے لیے وقف کر دی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

فیچر پوسٹ

Watan se Mohabbat Aur Islam

✍ ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی  وطن سے محبت ۔۔ دین اسلام کی رہنمائی ((ما أطيبَك من بلدٍ! وما أحبَّك إليَّ! ولولا أن قومي أخرجوني منك،...