ازقلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن
قاسمی
سورۂ
اخلاص میں لفظ "احد"
یہ وہ سورت ہے جسے رسول
اللہ ﷺ نے قرآن کے ثلث کے برابر قرار دیا۔ اور اس کی بنیاد لفظ "احد" پر
ہے، جو پوری توحید کا لب لباب ہے۔
قُلْ کی عظمت:
قرآن میں قُلْ اس
وقت آتا ہے جب کوئی سوال، کوئی شبہ، یا کوئی استفسار فضا میں پھیل رہا ہو۔ جیسے
کوئی پوچھتا ہو: یہ اللہ کون ہے جس کی طرف آپ ﷺ دعوت دیتے ہیں؟
اس کا جواب وہی ایک جملہ
ہے: هُوَ اللَّهُ
أَحَدٌ وہ اللہ ایک ہے، یکتا ہے۔
یہ سوال کبھی مومن کی
زبان پر ہوتا ہے جو اپنے رب کو پہچاننا چاہتا ہے، کبھی کسی حق کے متلاشی کے دل میں
اٹھتا ہے جو سرگردانی اور اضطراب میں بھٹک رہا ہے، اور کبھی مشرک کے ذہن میں ہوتا
ہے جو کہتا ہے: ہمارے پاس بھی اللہ ہے مگر ہم تو اس تک اپنے معبودوں کے ذریعے
پہنچتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانے میں قریش بھی یہ سوالات کرتے تھے،، نصاریٰ اور یہود بھی کرتے تھے،
بلکہ قدیم اقوامِ یونان و روم کے بھی یہی سوالات تھے کہ اللہ کے بیٹے اور شریک
ہیں۔ سورۂ اخلاص سب کا جواب ہے: اللہ نہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا، نہ
اس کا کوئی ہمسر۔
لفظ اللہ کی خصوصیت:
آیت کہتی ہے: هُوَ
اللَّهُ أَحَدٌ۔
یہاں اللہ کا نام
"ال" کے ساتھ آیا ہے، یعنی وہی معرّف، وہی مخصوص، وہی جو اپنی ذات و
صفات میں یکتا ہے۔ "إله" اصل ہے، اور "الله" اس کی وہ صورت ہے
جس میں ساری عظمت اور ساری الوہیت سمیٹ دی گئی ہے۔ یہ ایسا نام ہے جو نہ پہلے کسی
کے لیے تھا، نہ بعد میں کسی کے لیے ہوگا۔
واحد اور احد میں فرق:
قرآن میں اللہ کے لیے لفظ
"واحد" بھی آیا ہے اور "احد" بھی۔ لیکن "واحد" کے
ساتھ ہمیشہ "القهار" ملا ہے: هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ۔
یعنی وہ ایک ہے اور سب پر
غالب ہے۔
مگر "احد" کی
شان الگ ہے۔ "واحد" عدد کی ابتدا ہے، اس کے بعد دو، تین آسکتے ہیں۔ لیکن
"احد" ایسا نہیں ہے۔ "احد" کے ساتھ کوئی دوسرا نہیں آسکتا۔ یہ
اس کی یکتائی اور لاشریک ہونے کا لفظ ہے۔ اسی لیے سورہ اخلاص کا مرکز
"احد" ہے، نہ کہ "واحد"۔
اللہ الصمد
"احد" کے ساتھ
ہی فرمایا: اللَّهُ الصَّمَدُ۔
یعنی سب اسی کی طرف محتاج
ہیں، سب اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ وہی سب کا سہارا ہے، وہی سب کا مقصود ہے۔ انسان
خواہ مومن ہو یا کافر، علم والا ہو یا جاہل آخرکار اس کا سفر اسی دروازے پر ختم
ہوتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا
الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ﴾ (الانشقاق:
6)۔
نہ اس کی اولاد ہے نہ ماں
باپ:
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ
يُولَدْ یعنی وہ اول ہے اور آخر ہے۔ جس کا بیٹا ہو وہ آخر نہیں، جس کے
والدین ہوں وہ اول نہیں۔ اس کی یکتائی میں یہ دونوں دروازے بند ہیں۔
کوئی اس کا ہمسر نہیں
سورہ کے خاتمے پر پھر وہی
لفظ آیا: وَلَمْ يَكُن لَّهُ
كُفُوًا أَحَدٌ۔
یعنی نہ کوئی اس کا ہمسر
ہے، نہ اس جیسا۔ مخلوق میں صفاتِ الٰہیہ کی پرچھائیاں ہیں، لیکن کمال اور لاانتہاء
صرف اسی کی ذات کو ہے۔
لبّ لباب:
یہ سورت توحید کا نچوڑ
ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اس کی تلاوت ثلث قرآن کے برابر ہے۔"
(بخاری)۔
گویا سورۂ اخلاص کا
لفظ "احد" پوری کائنات کو صدا دیتا ہے: اللہ اکیلا ہے، بے
نیاز ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ آغاز ہے نہ انجام، نہ ہمسر ہے نہ مددگار۔ اور
یہی وہ ایمان ہے جو دین کی بنیاد اور قرآن کا مقصود ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں