از قلم: ڈاکٹر مبصرالرحمن قاسمی
کویتی عالم دین
شیخ محمد بن عبدالوہاب بن فیروزؒ
کویتی محقق اور مؤرخ
عدنان بن سالم بن محمد الرومی کی تصنیف "تاریخ کے گمشدہ اوراق: تین صدیوں کے
علماء اور مشاہیر کویت" ایک ایسی جامع دستاویز ہے جو کویت کی علمی اور فکری
تاریخ پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ یوسف الغنیم کے دیباچے کے ساتھ، 794
صفحات پر مشتمل یہ کتاب ماضی کے گم گشتہ حقائق کو دوبارہ زندہ کرتی ہے۔
اس کتاب میں سوانح
نگاری کا آغاز کویت کے پہلے نامور قاضی اور فقیہ، شیخ محمد بن عبدالوہاب بن فیروز
کے تذکرے سے ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق وہبی تمیمی قبیلے سے تھا اور آپ حنبلی مکتبِ فکر
کے پیروکار تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب آپ کی والدہ کے خاندان سے بھی ملتا ہے، جو آل
مشرف سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے ماموں شیخ سیف بن محمد بن عزازبھی اپنے وقت کے ایک
جید عالم اور قاضی تھے۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب
کا مولد و منشا نجد کے شہر اشیقر میں تھا، جہاں آپ کا خاندان رہتا تھا۔ بعد ازاں
آپ اپنے خاندان کے ساتھ علم و فضل کے مرکزالاحساء، منتقل ہو گئے۔ یہیں آپ نے اپنے
ماموں اور دیگر اساتذہ سے علم حاصل کیا، جن میں شیخ عبدالوہاب بن عبداللہ بن موسیٰ
بھی شامل تھے۔
آپ کے شاگردوں کی فہرست
میں آپ کے بھتیجے عبدالرحمن بن ابراہیم اور آپ کے بیٹے عبداللہ جیسے نام شامل ہیں۔
آپ کے بیٹے عبداللہ ایک بلند پایہ عالم تھے، جن سے معروف مبلغ شیخ محمد بن
عبدالوہاب (دعوتِ نجدیہ کے بانی) نے الاحساء میں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے
دوران انہوں نے حضرت عبداللہ کے پاس شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی
کتابیں دیکھیں اور ان کے علم سے متاثر ہو کر ان کی بہت تعریف کی۔
شیخ محمد بن فیروز وہ
پہلے عالم تھے جنہوں نے کویت میں قضا کا منصب سنبھالا۔ مؤرخ شیخ عبدالعزیز الرشید
کے مطابق، کویت میں قاضی کا عہدہ سنبھالنے والے پہلے شخص کے بارے میں یقین سے کچھ
نہیں کہا جا سکتا، تاہم، سب سے قدیم اور معروف نام شیخ محمد بن فیروز کا ہی ہے۔
انہوں نے اپنی زندگی کا آخری حصہ کویت میں گزارا اور یہیں وفات پائی۔
آپ کا انتقال 1135 ہجری
(1722 عیسوی) میں کویت میں ہوا، اور آپ نے اپنے پیچھے ایک بیٹے عبداللہ کو چھوڑا
جو خود بھی ایک بڑے فقیہ تھے۔ یوں، شیخ محمد بن عبدالوہاب بن فیروز کی شخصیت کویت
کی علمی اور فکری تاریخ کی بنیادوں میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔
(یہ
تحریر ریڈیو کویت کے پروگرام آئیے جانتے ہیں میں "گوشہ
تاریخ کویت "کے لیےلکھی گئی تھی)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں